اس رقم کو ہمارے خلاف استعمال کرے گی، اس لیے اسے صدقہ کردیا جائے۔
۵- ایسی صورت میں چوں کہ کمپنیاں خود انشورنس کرتی ہیں، اور حمل ونقل کی متعارف اُجرت سے زیادہ رقم اس معاہدہ کے ساتھ صاحبِ مال سے وصول کرتی ہے کہ مال کے ضیاع ونقصان کی صورت میں ہم ضمان ادا کریں گے، تو کمپنیوں سے مال کے ضیاع یا نقصان کی صورت میں معاوضہ لینا جائز ہے، چاہے یہ کمپنیاں مسلمانوں کی ہوں، یا غیر مسلموں کی، دونوں کاایک ہی حکم ہے، اس لیے کہ ’’رد المحتار‘‘ کی عبارت ہے: ’’ إن المودع إذا أخذ أجرۃ علی الودیعۃ یضمنہا إذا ہلکت ‘‘ ۔ (۳/۲۷۳)
جب مودع ودیعت کے رکھنے پر اُجرت وصول کرے، تو اس کے ہلاک ہونے کی صورت میں اس پر ضمان واجب ہوگا۔ہذا ما عندي ۔
واللّٰہ الموفق للصواب !
( جدید فقہی مباحث:۴/۲۸۵، ۲۸۶، موجودہ حالات میں انشورنس کا حکم، ادارۃ القرآن کراچی)