احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
بعد بعض عورتوں کا چہرہ کھول کر سامنے آنا یقینا ضرورت کی وجہ سے تھا اور یہ بھی ثابت نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف قصداً نظر فرماتے تھے اور نہ یہ ثابت ہے کہ اس وقت بے پردگی کی عام طورسے عادت تھی ،چنانچہ یہ احادیث ملاحظہ ہوں ۔ (۱)حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہم کو اس بات کا حکم دیاگیا تھا کہ عید کے دن حیض والی عورتوں اور پردہ میں بیٹھنے والیوں کو بھی عید گاہ لے جائیں ۔الحدیث۔ (رواہ البخاری والمسلم)(مشکوٰۃ شریف) اس میں ذوات الخدور کا لفظ جس کے معنی ’’ پر دہ میں بیٹھنے والیاں ‘‘ ہیں اس دعویٰ کو ثابت کررہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بے پردگی کی عام عادت نہ تھی ۔ (۲)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے ایک خط دینے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔الحدیث (رواہ البخاری والنسائی)(مشکوٰۃ شریف) اس میں عورتوں کا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیسرے درجہ کا گہراپردہ کرنا مذکور ہے ۔ (۳)ابوالسائب ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک نوجوان صحابی کے قصہ میں جس کی شادی کو کچھ ہی دن گذرے تھے روایت کرتے ہیں کہ وہ نوجوان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنے گھر گیا تو اس کی بیوی دروازہ پر کواڑوں کے بیچ میں کھڑی ہوئی تھی ،نوجوان نے اپنا نیزہ اس کی طرف سیدھا کیا تا کہ اس پر حملہ کرے اور غیرت کے جوش سے بے تاب ہوگیا۔الحدیث رواہ مسلم۔ (مشکوٰہ شریف)