احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
لواطت کی حرمت ایسی عادت سے نسل انسانی کی بیخ کنی ہوتی ہے ،اس طریقہ سے گویا انسان نظام الٰہی کو بگاڑ کر اس کے مخالف طریقہ سے قضاء حاجت کرتا ہے اس وجہ سے ان افعال کا برااور مذموم ہونا لوگوں کی طبیعتوں میں جم گیا ہے ، فاسق فاجر ایسے افعال کرتے ہیں لیکن ان کے جواز کا اقرار نہیں کرتے اگر ان کی طر ف ایسے افعال کی نسبت کی جائے تو شرم وحیا سے مرجاناگوارہ کرتے ہیں ۔ہاں جو فطرت ہی سے جدا ہوگئے ہوں تو ان کو پھر کسی قسم کی حیا باقی نہیں رہتی اور کھلم کھلا وہ ایسے افعال کرتے ہیں ۔ (المصالح العقلیہ ص۳۲۳)پردہ میں بھی بدکاری ہوجانے کی حقیقت ایک جگہ اعتراض کیاگیا کہ پردہ میں بھی سب کچھ ہوجاتا ہے جن طبیعتوں میں خرابی ہوتی ہے وہ کسی صورت میں بھی باز نہیں رہ سکتیں کیاپردہ داروں میں زنا نہیں ہوتا؟ میں نے کہا کہ جب کبھی بھی کچھ ہوا تو بے پردگی ہی سے ہوا ،اور اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں ان کو پردہ دار کہنا ہی برائے نام ہے ورنہ ان کے یہاں نہ چچازاد بھائی سے پردہ ہے نہ ماموں زاد بھائی سے ،نہ خالہ زاد سے، نہ بہنوئی سے، نہ دیور سے، نہ جیٹھ سے، جب ہی تو یہ مفاسد مرتب ہوئے ہیں ،اس حالت میں ان کو پردہ دار کہنا ایسا ہے جیسے کوئی عزت دار آدمی جوا کھیل کریا شراب پی کر جیل خانہ میں پہنچ جائے توکوئی کہے کہ لوصاحب جیل خانہ