احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
سے مایوس ہوکر مرنے لگاتھا کسی نے محبوب سے جاکر کہا کہ وہ مررہا ہے رحم کرو اس وقت پہونچ جاؤ گے تو اس کی جان بچ جائے گی کچھ اس کی سمجھ میں آگئی اور اٹھ کر اس کی طرف چل دیا کسی نے عاشق کو خبر دی کہ تیرا محبوب آرہا ہے یہ سن کر اس میں جان آگئی اور اٹھ کر بیٹھ گیا ،مگر آتے آتے محبوب کو کچھ غیرت آئی اور یہ کہہ کرلوٹ گیا کہ کون بدنام ہوکسی نے یہ بھی جاکر (اس عاشق سے) کہا یہ خبر سنتے ہی وہ عاشق گرگیا اور نزاع میں مبتلا ہوگیا ،اس سے کہا گیا کہ کلمہ پڑھ لے تووہ بجائے کلمہ کے کفر کا کلمہ کہتا ہے ؎ رضاک اشہیٰ الی فؤادی من رحمۃ الخالق الجلیل (یعنی اے میرے محبوب خالق کے مقابلہ میں تیری رضا کی مجھے زیادہ خواہش ہے) اور اسی حالت میں جان نکل گئی ،دیکھئے کس قدر عبرتناک واقعہ ہے ،اس کی اگر اصل تلاش کریں گے توکہیں پہنچ کر نگاہ ہی پر ختم ہوگی ، جان بھی گئی اور ایمان بھی گیا ،اور یہ سب خرابی نگاہ کی ہوئی ،اب دیکھ لیجئے کہ نگاہ کرنے میں زیادہ تکلیف ہوئی یانگاہ روکنے میں کہیں نہ سنا ہوگا کہ کوئی تکلیف سے مرگیا ہو ،تکلیف اس میں ضرور ہے مگر وہ تکلیف آسان ہے لوگ کہتے کہ نگاہ پر قابو نہیں نظربد سے رکا نہیں جاتا یہ غلط ہے نظر یقینا فعل اختیاری ہے ۔ (مفاسدگناہ ص۱۷۲)دردناک واقعہ ایک بزرگ طواف کررہے تھے اور ایک چشم (کانے تھے) اور کہتے جاتے تھے:’’ اللّٰہم انی اعوذبک من غضبک‘‘اے اللہ میں تجھ سے تیرے