احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
ہوگا ،الا بضرورۃ ،چنانچہ دوسری جگہ اس کی تصریح بھی ہے فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ ،اور نیز یہ مفہوم ہوسکتا ہے کہ جب آواز ایسی قابل اخفاء ہے تو صورت (چہرہ ) کیوں نہ قابل اخفاء ہوگا جو کہ اصل فتنہ کا مبداہے ۔ (بیان القرآن ص۱۷ج۸ سورہ نور)عورتوں کے نام کاپردہ عورتوں کواپنی تصنیف میں نام لکھنے میں بھی آج کل بے پردگی ہے ہاں مرنے کے بعد ظاہر کردیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ،(وجہ اس کی یہ ہے کہ) عورت کے ساتھ مرد کو طبعی میلان ہوتا ہے اس لئے بہت احتیاط کرنا چاہئے ،ازواج مطہرات جو امہات المؤمنین (تمام مسلمانوں کی ماں ) تھیں اور ہمیشہ کے لئے سب پر حرام تھیں ،ان کے لئے حکم ہے لاَتـَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ یعنی نرم لہجہ سے بات نہ کرو شایدسننے والے کے دل میں کوئی روگ پیدا ہو ،اب تو عورتیں غضب کرتی ہیں ۔ (حسن العزیز ص۴۸۲ج۱) اب تو یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ اخباروں میں عورتوں کے اشعار چھپتے ہیں اور اخیرمیں ان کا نام یافلاں کی بیٹی یافلاں کی بیوی بھی چھپتا ہے میں نے یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک شخص میرے سامنے اخبار پڑ ھ رہے تھے اس میں ایک عورت کا پوراپتہ لکھا ہوا تھا کہ فلاں کی بیٹی فلاں شہر فلاں محلہ کی رہنے کی والی ،وہ کہنے لگے عورتوں کے نام اس طرح اخباروں میں چھاپنا گویا ان کو سرِبازار بٹھلادینا ہے ،واقعی سچ ہے اس طرح تو گویا ظاہر کردینا ہے کہ جو کوئی ہم سے ملنا چاہے اس پتہ پر چلا آئے اور اگر کسی کی یہ نیت نہ بھی ہو تو بدمعاشوں کو پتہ معلوم ہوجانے سے سہولت تو ہوجائے گی ۔ (حقوق البیت ص۳۳)