احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
کو قصہ سناتاہوں جس سے تم کو اندازہ ہوگا کہ پردہ کس درجہ ضروری ہے (وہ قصہ یہ ہے کہ) حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ایک نابینا صحابی ہیں وہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے ازواج مطہرات میں سے غالباً حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیٹھی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پردہ میں ہوجاؤانہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ وہ تو اندھے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَفَعَمْیَاوَاِنْ اَنْتُمَااَلْسَتُمَا تُبْصِرَانِہٖ یعنی کیا تم بھی اندھی ہو؟اس کو دیکھتی نہیں ہو؟ دیکھو حضو رصلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں امہات المؤمنین (تمام مسلمانوں کی مائیں ) دوسری طرف نابینا صحابی بھلا یہاں کون سے وسوسہ کا احتمال ہوسکتا ہے مگر پھر بھی کس درجہ اہتمام کرایا۔ (العفہ، اشرف الجواب معارف ص۵۷۶)نگاہ کی حفاظت اور پردہ کی ضرورت عقل وشریعت کی روشنی میں قرآن پاک کی جس آیت میں نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت دونوں کا حکم ہے اس میں حق تعالیٰ نے نگاہ نیچی رکھنے کے حکم کو مقدم کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے قُلْ لِلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْیعنی کہہ دیجئے مؤمنین سے کہ اپنی نگاہیں نیچی کریں یعنی نظر سے بچیں ،اس حکم کو دوسرے حکم پر یعنی شرمگاہ کی حفاظت کے حکم پر مقدم کیا یعنی اصل فعل سے بچنے پر نگاہ نیچی رکھنے کے حکم کو مقدم کیا،اس کی وجہ یہی ہے کہ غض بصر(یعنی نگاہ کو نیچی رکھنا) شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور ذریعہ آسان ہوتا ہے ،اسی واسطے اس کو اختیار کیاجاتا ہے ، معلوم ہوا کہ اصل فعل یعنی زنامیں ملوث ہونا تو مشکل ہے مگر نظر کو بچالینا آسان