احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ توکوئی نہ ہواہوگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم (کی حالت یہ تھی کہ آپ) خود اپنے سے عورتوں کو پردہ کراتے تھے ،ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پردہ کے پیچھے سے خط دیا ،اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے عورتوں کو نہ آنے دیتے تھے ۔پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پردہ کرائیں توکونسا پیراور کونسارشتہ دارہے جس سے بے پردگی جائز ہوگی ،اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آج کل جو بعض نوتعلیم یافتہ کہتے ہیں کہ پردہ ضروری نہیں اور ایسا پردہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں یہ محض غلط ہے ،بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے قرآن وحدیث کو دیکھاہی نہیں بس دیکھا کیا ہے کوئی اخبار دیکھ لیا ،اگر کچھ عربی پڑھی ہے تو مصری اخبار دیکھ لیا ، سو سمجھ لوکہ یہ پردہ جو آج کل مروج ہے یہ قرآن سے بھی ثابت ہے اور حدیث سے بھی ثابت ہے جیسا کہ اوپر گذرچکا ۔ (العفہ ص۷ اشرف الجواب معارف ص۵۷۵)نگاہ کی حفاظت کی ضرورت حق تعالیٰ نے یہ تدبیر بتلائی کہ نگاہ نیچی رکھواگر بضرورت تم کو کسی غیر کے سامنے آنا پڑے تونگاہ نیچی رکھو اور کپڑوں میں لپٹ کر آؤ۔ یہ نگاہ بظاہر ہے بہت ہلکی لیکن تمام پھل پھول کی جڑ یہی ہے جیسے زکام ہے کہ بظاہر بہت ہلکی بیماری ہے لیکن پھر سینکڑوں بیماریوں کا ذریعہ بن جاتا ہے ،اسی واسطے (اللہ تعالیٰ نے) پہلے اسی (بدنگاہی) کو روکا ہے۔ دیکھونبی کی بیبیوں سے زیادہ تو(پاکدامن) کوئی عورت نہیں ہوسکتی میں تم