احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
باب۱۲ بزرگوں اور پیروں سے پردہ بعض جگہ یہ دستوردیکھا ہے کہ عورتیں پیروں (اور بزرگوں )سے پردہ نہیں کرتیں ان کے سامنے آتی ہیں ،اورغضب یہ کہ بعض دفعہ تنہائی میں بھی ان کے پاس آجاتی ہیں کہ کوئی محرم بھی اس جگہ نہیں ہوتا یہ کس قدر حیاسوز (بے غیرتی) کا طریقہ ہے ۔ بیبیو! پیر سے صرف دین کی تعلیم حاصل کرواس کے سواخدمت وغیرہ کچھ نہ کرو،نہ اس کے سامنے آؤ، نہ خط وکتابت کرو، بلکہ جو کچھ لکھوانا ہواپنے مردسے کہہ دوخود لکھ دے، اور اگر کبھی مجبوری کی حالت میں تم کو خود ہی لکھنا پڑے تو اس بات کا ضرورلحاظ رکھو کہ خط لکھ کرا پنے شوہر یابھائی یابیٹے کو دکھلادیاکرو، اور پتہ مردہی سے لکھوایاکرو،اس میں کوئی زیادتی نہ ہوگی اور نہ مردوں کو اس طرح خط وکتابت سے گرانی ہوگی ،اور اگر اس( طرح کرنے ) میں بھی ان کے دل پر کچھ گرانی دیکھو تو خود ہر گزخط نہ لکھو بلکہ مرد ہی سے لکھوایا کرو، مگر افسوس ان باتوں کی آج کل بالکل پرواہ نہیں بلکہ یہاں تک بے حیائی ہے کہ ایک عورت نے اپنے پیر کی شان میں عاشقانہ غزل لکھی جس میں خدوخال او رفراق ووصال تک کا حال لکھا تھا اور وہ غزل ایک پرچہ میں شائع ہوئی ،پر چہ میرے پاس آتا تھا جب میں نے دیکھا مجھے سخت غصہ آیااور اس پرچہ کا اپنے نام پر آنا بند کردیا خداجانے وہ پیر بھی کیسے تھے جنہوں نے اس کو گواراکیا واقعی شریعت کے چھوڑنے سے حیاء وغیرت بھی بالکل جاتی رہتی ہے ۔ (حقوق البیت ص۳۳)