احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
دوسری قوموں کا لباس اور فیشن اختیار کرنا عقل ونقل کی روشنی میں آج کل لوگوں کو اس مسئلہ میں بھی شبہ ہے کہ دوسری قوموں کی وضع (فیشن) اختیارکرنے کے متعلق کہتے ہیں کہ کیا اس سے ایمان جاتارہتا ہے ؟اس کے متعلق دومثالیں عرض کرتاہوں ،اس وقت سلاطین(اور مختلف ممالک) میں جنگ ہورہی تھی ،اگر کوئی شخص جو برطانیہ کی فوج میں ہو وہ جرمنی سپاہی کی وردی پہن لے ،اور منصبی خدمت (اپنی ذمہ داری) میں کوئی کوتاہی نہ کرے توکیا اس کا یہ فعل (حرکت) افسران کی ناخوشی کا ذریعہ نہ ہوگا۔؟ دوسری مثال لیجئے کہ کیاکوئی مرداپنے لئے زنانہ کپڑے پہننا اپنے لئے تجویز کرسکتا ہے ،ذرازنانہ کپڑے اور پازیب (چوڑی وغیرہ) پہن کر عام جلسہ میں بیٹھ توجائیں ،زنانی وضع (طور طریق) میں سوائے تشبہ کے اور کیا عیب ہے ۔ افسوس ایک مسلمان تودوسرے مسلمان کی وضع اختیار نہ کرے کیونکہ اس میں اگر فرق ہے تو صرف مرداور عورت کا ہے ،اسلام تودونوں کا مشترک ہے ،اور مسلمان ہو کر غیر مسلمان (دوسری قوموں ) کی وضع اختیارکرے؟ تعجب ہے ! بعض لوگ کہتے ہیں کہ ضرورت کی وجہ سے (دوسری قوموں کا لباس) پہنتے ہیں ،میں کہتا ہوں کہ اگر اس کی ضرورت تسلیم بھی کرلی جائے تو کیا ہر وقت ہی ضرورت رہتی ہے؟یہ سب حیلے ہیں ،میں اس کاا صلی گرُ(اور وجہ)بتلادوں ،بات صرف یہ ہے کہ یہ ایسی قوم کی وضع (اورفیشن) ہے جو رعب اور