احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
نہیں ، یہاں ان عورتوں سے بحث ہے جن عورتوں میں فطری حیا موجود ہے بے حیاؤں کا ذکر نہیں ، افسوس ہم ایسے زمانہ میں ہیں جس میں فطری امور کوبھی دلائل سے ثابت کرنا پڑتا ہے ۔ صاحبو! پردہ اول تو عورت کے لئے فطری امر ہے ،دوسرے عقلی مصالح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے ،مگر آج کل بعض ناعاقبت اندیش (انجام سے بے خبر) پردہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ، میں بقسم کہتاہوں کہ پردہ کے توڑنے میں خلاف شرع اور گناہوں سے قطع نظر اتنی خرابیاں ہیں کہ آج جو عقلاء پردہ کی مخالفت کرتے ہیں اور پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ان خرابیوں کو دیکھ کر بعد میں خود ہی یہ تجویز کریں گے کہ پردہ ضرور ہونا چاہئے مگر اس وقت بات قابو سے نکل چکی ہوگی ،پھر پچھتائیں گے اور کچھ بھی نہ ہوسکے گا۔ (وعظ کساء النساء، معارف حکیم الامت ص۵۲۰،۵۲۱)عورت کو پردہ میں رکھنا غیرت اور فطرت کا تقاضہ ہے پردہ فطری شئی ہے ،غیرت مند حیا دار طبیعت کا خود یہ تقاضا ہوتا ہے کہ عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے ،کوئی غیر تمندآدمی اس کو گوارہ نہیں کرسکتا کہ اس کی بیوی کو تمام مخلوق کھلے منہ دیکھے۔ اور شریعت نے فطری باتوں کے بیان کرنے کا خاص اہتمام نہیں کیا چنانچہ پیشاب پاخانہ کی طہارت وناپاکی سے تو بحث کی ہے لیکن یہ کہیں قرآن وحدیث میں نہیں آیا کہ پیشاب پاخانہ کھانا حرام ہے ،کیونکہ اس سے طبیعتیں خود نفرت کرتی ہیں ،اس قاعدہ کا مقتضی ٰ تو یہ تھا کہ شریعت پردہ کے احکام سے بحث نہ کرتی مگر