احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
اور تلخ (بد) مزاج ہیں ،تاکہ لاحول ہی پڑھ کر چلاجائے ،نہ یہ کہ نرمی سے گفتگو کرو کہ میں آپ کی محبت کا شکریہ اداکرتی ہوں ، مجھے جناب کے الطاف کریمانہ کا خاص احساس ہے ،استغفراللہ لوگوں نے آج کل ا س کو تہذیب سمجھ لیا ہے اور بعض لوگ اس پر کہہ دیتے ہیں کہ صاحب بتلائیے کیا فساد ہو رہاہے ہم کو تو نظر نہیں آتا ، میں کہتا ہوں کہ اول تو فساد موجود ہے اور اگر تم کو نظر نہیں آتا توممکن ہے کہ بہت قریب آگے چل کر یہ لہجہ کچھ رنگ لائے اس وقت سب کو معلوم ہوگا ، اور مجھ کو تو اس وقت معلوم ہورہا ہے اہل نظر شروع ہی میں کھٹک جاتے ہیں کہ یہ چیز کسی وقت میں رنگ لائے گی۔ (العاقلات الغافلات ص۳۴۳،کساء النساء ص۶۴۰ ملحقہ حقوق الزوجین)حیاوفطرت کا مقتضی ٰ اول تو عورتوں کو غیر وں سے بولنا ہی نہیں چاہئے مگر بضرورت بولنا جائز ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سختی سے گفتگو ہوتا کہ دوسرے کے دل میں کشش اور میلان پیدانہ ہو ،اور عورتوں کے لئے یہ طریقہ شرعی حکم ہونے کے علاوہ طبعی (اور فطری تقاضا) بھی ہے ،حیا عورت کے لئے طبعی امر ہے اور اس کے آثار ان دیہاتی عورتوں میں جن پر حیا زائل ہونے کے اسباب نے اثر نہیں کیا موجود ہیں ،اس سے پتہ چلتا ہے کہ طبعی بات عورت کے لئے یہی ہے موجود ہیں ،اس سے پتہ ہے کہ طبعی بات عورت کے لئے یہی ہے کہ غیر مردوں سے میل جول نہ کرے ،اور کوئی ایسی بات ، قول (گفتگو) یاعمل میں اختیار نہ کرے جس سے میل جول یاکشش پیدا ہو ،دیہات میں دیکھئے کہ بھنگن وچمارن سے خطاب کیجئے تووہ منہ پھیر کر اول تو