احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
اشارہ سے جواب دیگی ، مثلاً راستہ پوچھئے تو انگلی اٹھاکر بتادے گی کہ ادھر ہے ،اور اگر بولنا ہی پڑے تو بہت تھوڑے الفاظ میں مطلب کو اداکردے گی نہ اس میں القاب ہوں گے نہ آداب نہ ضرورت سے زیادہ الفاظ ،نہ آواز نرم ہوگی بلکہ اس طرح بولے گی جیسے کوئی زبردستی بات کرتا ہے ،یہی شریعت کی تعلیم ہے ،توشریعت فطرت کے بالکل موافق ہے ، چونکہ دیہات والوں میں یہ اخلاق طبعی موجود ہوتے ہیں اور ان سے انحراف (یعنی آزادی بے باکی) کے اسباب وہاں نہیں پائے جاتے اس واسطے دیہاتیوں کے اخلاق دعادات اپنی اصلی حالت پر ہوتے ہیں ۔ مگر افسوس ہے کہ آج کل طبعی اخلاق سے دوری ہوگئی ہے اور جوباتیں بری سمجھی جاتی تھیں وہ اچھی سمجھی جانے لگی ہیں حتی کہ اس قسم کے مضامین اور ایسے خیالات اور ایسے جذبات جن سے خوامخواہ میلان ہوآج کل ہنر سمجھے جانے لگے ہیں ،اس سے بہت پر ہیز کرنا چاہئے ،اللہ محفوظ رکھے ، یہ سب اثر ہے اس نئی تعلیم کا۔ یہ (کالجو ں اسکولوں کی) تعلیم عورتوں کے لئے تو نہایت ہی مضر ہے ، عورتوں کی تعلیم کا وقت بچپن کا ہوتا ہے مگر آج کل شہروں میں بچپن ہی سے لڑکیوں کو نئی تعلیم دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس تعلیم کے آثار ونتائج ان کی رگ وپے میں سرایت کرجاتے ہیں پھر دوسری کوئی تعلیم ان پر اثر ہی نہیں کرتی ،لڑکیوں کی مثال بالکل کچی نرم لکڑی کی سی ہے اس کو جس صورت پر قائم کرکے خشک کردوگے تمام عمر ویسی ہی رہے گی ،جب بچپن ہی سے نئی تعلیم دی گئی ،نئے اخلاق سکھائے گئے ،نئی وضع قطع نئی طرز معاشرت ان کی نظروں میں رہا تو وہ اسی میں پختہ ہوگئیں بڑی ہو کر ان کی اصلاح کسی طرح نہیں ہوسکتی لہٰذا ضرورت ہے کہ بچیوں کو نئی تعلیم کے بجائے پرانی (دینی) تعلیم دیجئے ۔ (کساء النساء ص۲۴۴)