احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
شارع کو معلوم تھا کہ ایک زمانہ میں طبیعتوں پر بہیمیت(جانوروں کی صفت) غالب ہوگی جس سے حیا کم ہوجائے گی یا جاتی رہے گی اس لئے اس کے متعلق احکام بیان فرمادیئے ہیں ۔ (الفیض الحسن ص۱۶۹) بعض لوگ(عورتوں کو) گھروں میں رکھنے(اور باہرنکلنے کی ممانعت کو) کوقید کہتے ہیں میں کہتاہوں کہ یہ قید نہیں ہے بلکہ باہر نکلنا حقیقت میں قید ہے کیونکہ قید کی حقیقت ہے مرضی کے خلاف مقید کرنا ، پس قید تو جب ہوتا کہ وہ باہر نکلنا چاہیں اورتم ہاتھ پکڑکر اندرلے جاؤ ،اگر طبیعت سلیم ہو تو عورت کے لئے بے پردہ ہوکر باہر نکلنا موت ہے ،پس بے پردگی قید ہوئی، پردہ میں رہنا قید نہ ہوا، بعض عورتوں نے جانیں دیدیں ہیں اور باہر نہیں نکلیں ، اعظم گڑھ میں ایک شخص کے مکان میں آگ لگ گئی اس کی بیوی جل کر مرگئی لیکن باہر نکل کر دوسروں کو صورت نہیں دکھائی ،میں یہ فتویٰ بیان نہیں کرتا کہ اس نے یہ اچھا کیا ،مطلب صرف ان کے فطری جذبات کو بیان کرنا ہے ، پھر عورت کے معنی ہی ہیں چھپانے کی چیز ۔ (العاقلات الغافلات ملحقہ حقوق الزوجین ص۳۵۰) میں تو کہتاہوں اگر خدا اور رسول کا پردہ کے وجوب کا حکم بھی نہ ہوتا اور واقعات بھی نہ ہوتے تب بھی آخرغیرت بھی کوئی چیز ہے ، مرد کو تو طبعاً غیرت آنی چاہئے کہ اس کی عورت کو کوئی دوسرا دیکھے ،پھر واقعات مزید برآں ۔ علماء نے لکھا ہے کہ جوان داماد یادودھ شریک بھائی سے بھی احتیاط کرنا چاہئے بے محاباسامنے نہ آنا چاہئے ،اس کے متعلق واقعات ہوچکے ہیں ۔ (ملفوظات حکیم الامت)