احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
ہے ،علماء نے اسی حدیث سے عورتوں کے لئے کھڑے(مردانہ )جوتے پہننے کو حرام کہا ہے ۔ (التبلیغ وعظ کساء النساء ص۱۶۷ج۷) شہروں میں ایسی آزادی پھیلی ہے کہ بعض شہروں میں عورتیں اچکن (مرادنہ لباس) پہنتی ہیں ،اور اس میں قصور عورتوں کا تو ہے ہی کچھ ڈھیلاپن مردوں کا بھی ہے ،کہ وہ ان باتوں کو معمولی سمجھ کر عورتوں پر روک ٹوک نہیں کرتے حالانکہ یہ باتیں ہلکی اور معمولی نہیں لعنت سے زیادہ اور کیا سختی ہوگی ،جب ان باتوں پر لعنت آئی ہے تو ہلکی کیسی مگر لوگوں کو دین کا اہتمام ہی نہیں ،سالن میں ذرانمک تیز ہوجائے تو مردایسے خفاہوجاتے ہیں کہ کھانا نہ کھائیں اور رکابی( پلیٹ)بیوی کے منھ پر دے ماریں ،اور مارنے پیٹنے کو کھڑے ہوجائیں مگر لعنت کے کام پر ذرابھی حرکت نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض مرد تو ایسے آوارہ مزاج کے ہیں کہ باہر والی(فیشن والی) عورتوں کو دیکھ کر ان کے دل میں خودہی شوق ہوتا ہے کہ اپنی گھروالیوں کو ایسا ہی بنائیں ۔ افسوس! کہاں گئی ان کی غیرت اور کہاں گئی شرافت کیا شریف عورتوں کو بازاری بنانا چاہتے ہیں ۔ گھر میں رہنے والی عورتیں توبس الول جلول ڈھیلی ڈھالی وضع ہی میں اچھی لگتی ہیں ،یہ کیا کہ کسی کسائی پھرتی ہیں ،یہ کوئی سپاہی ہیں جو ہر وقت کمر کسی ہوئی ہے ،ہاں یہ ضروری ہے کہ میلی کچیلی نہ رہیں ،کیونکہ صفائی ستھرائی اور زینت اختیار کرنا یہ شوہر کا حق ہے ،مگر یہ مناسب نہیں کہ آستینیں بھی کسی ہوئی ہیں پائجامے بھی ایسے چست ہیں کہ چٹکی لوتوکھال چٹکی میں آجائے جوتا بھی ؟ ہوا ہے یہ کیا لغوحرکتیں ہیں ،خدا تعالیٰ نے تم کو عورت بنایا ہے تم مرد کیسے بن سکتی ہو۔ (التبلیغ کساء النساء ص۱۶۸ج۷)