احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
ظلم وستم ہے کہ عورتوں کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے ،ہم نے مانا کہ تمہارادل پاک ہے لیکن تم کو دوسرے کی کیا خبر؟،اگر کہو کہ دوسرا بھی پاک ہے توتوبہ توبہ خدا ورسول کو تم نے ظالم قراردیا کہ باوجودیکہ یہ پاک تھا پھر بھی اس سے پردہ کاحکم دیا اگر یہ (نامحرم رشتہ دار) پاک وصاف ہوتے تو حق تعالیٰ ضرور ان کا نا م لکھ دیتے کہ فلاں شخص پاک ہے ۔ یادرکھو اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے کہ کون پاک ہے اور کون نہیں انبیاء سے زیادہ توکوئی نہیں ہوسکتا یوسف علیہ السلام باوجود نبی ہونے کے فرماتے ہیں وماابرّیٔ نفسی ان النفس لا مارۃ بالسوء الا مارحم ربی یعنی میں اپنے نفس کوبری نہیں کرتاہوں ،نفس توبری بات ہی کا حکم کرنے والا ہے ،مگر جس پر میرارب رحمت فرمائے وہ مستثنیٰ ہے ۔ اب بتلائیے کہ کس کا منھ ہے جو کہے کہ میرانفس پاک ہے ،مجھ کو براوسوسہ نہیں آتا ،اور اگرکسی کو ایسا اتفاق ہوتا ہے تو وہ عارضی حالت ہے ،چنانچہ بعض بزرگوں کو بھی اس میں دھوکہ ہوا ہے انہوں نے دیکھا کہ ہمار انفس مزکی (پاک وصاف) ہوگیا ہے اس لئے انہوں نے غیرمحرم سے اختلاط (میل جول بے پردگی ) میں کوئی باک (لحاظ) نہیں رکھا ،اور پھر کسی فتنہ میں مبتلا ہوگئے ،خواہ وہ فتنہ دل ہی کا ہو،اور یہ کارگذاری (سازش) شیطان کی ہے کہ اس ترکیب سے کہاں سے کہاں تک لایا،اسی واسطے حق تعالیٰ نے پہلے یہ تدبیر بتلائی کہ نگاہ نیچی رکھو۔ (العفۃ ص۷ اشرف الجواب معارف حکیم الامت ص۵۷۵)