احکام پردہ ۔ عقل و نقل کی روشنی میں |
حکام پر |
|
میں ایک عام باغ ہے وہاں ایک رئیس زادی زیب وزینت کے ساتھ ٹہل رہی تھی اسے بدمعاشوں نے چھیڑناشروع کیاوہ عورتوں کے مجمع کی طرف بھاگی وہاں بھی پناہ نہیں ملی تو پولیس نے بچایا ۔ اور لیجئے ایک جنٹلمین صاحب جنہوں نے (اپنے خاندانی شرافت کے خلاف) نیانیاپردہ توڑا تھا وہ اپنی بیگم کوتفریح کی غرض سے منصوری پہاڑپرلے گئے اور تفریح کے لئے اس سڑک پر گئے جہاں بڑے افسر انگریزوں کے بنگلے تھے وہاں ایک کوٹھی کے سامنے سے گذرے جو کسی بڑی افسر کی تھی اور وہاں تین گورے پہرے پر تھے ان کو دیکھ کرانہوں نے کچھ آپس میں گفتگو کی اور ایک ان میں سے چلا اور ان کی بیگم کا ان کے ہاتھ میں سے ہاتھ چھڑاکر ایک طرف لے گیا اور اسے خراب کرکے لے آیا ،پھر دوسرے اور تیسرے نے بھی یہی عمل کیا اور یہ اپنا سامنھ لے کرچلے آئے ۔ افسوس لوگوں کو شرم غیرت نہیں رہی ،یہ تو شریعت کی رحمت ہے کہ اس کا بھی حکم دے دیا ،باقی غیرت خود ایک ایسی چیز ہے کہ اس (بے پردگی) کو غیرت کے ہوتے ہوئے کوئی برداشت ہی نہیں کرسکتا وہ تو ایک قسم کی محبوبہ ہوتی ہے عاشق کب چاہتا ہے کہ میرے محبوب پر کوئی دوسرا نظرڈالے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت پردہ میں بھی تو ایسے قصے ہوجاتے ہیں پھرپردہ سے کیافائدہ ہوا؟فرمایا سبحان اللہ جب پہلے تعلق ہوا ہے توبے پردگی ہی سے ہوا ہے ،وہ عورت پہلے اس سے بے پردہ ہی تو ہوئی تھی جب ہی تو تعلق ہوا، پردہ کے ہوتے ہوئے کوئی خرابی نہیں ہوسکتی جہاں خرابی ہوتی ہے بے پردگی سے ہوتی ہے ،جہاں خرابی ہوتی ہے وہاں پردہ ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو محض نام