تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے آگ سے حفاظت کے طور پر بڑا زبردست احاطہ بنا لیا‘ اور فرمایا: جس کے تین نابالغ بچے فوت ہو جائیں تو اللہ ان پر اپنی رحمت کے ذریعے اسے بھی جنت میں داخل کرے گا۔ کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !… اور جس کے دو بچے فوت ہو چکے ہوں؟
توفرمایا:… دو کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔
(اخرجہ احمد و بخاری)
دوسرا فائدہ:
شیطان سے حفاظت‘ شہوت کی برائیوں کی روک تھام‘ نگاہوں کی حفاظت‘ شرمگاہ کی حفاظت۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں اسی کی طرف اشارہ ہے:
’’ جس نے نکاح کر لیا اس نے اپنے آدھے دین کی قلعہ بندی کر لی‘ چنانچہ دوسرے حصے میں اللہ سے ڈرے۔‘‘
(اتحاد المتقین ۵/۳۰۰‘ مجمع الزوائد ۴/۲۵۲)
اولاد فطری طور پر مقصود ہے اور شہوت حصول اولاد پر ابھارتی ہے۔
نکاح کو دین میں بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کے ذریعے شہوت کی خرابیاں دور ہوتی ہیں‘ کیونکہ جب شہوت غالب آ جائے اور اسے پورا کرنے کا جائز اہتمام نہ ہو تو فواحش کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ وحی الٰہی کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی طرف یوں اشارہ فرمایا:
الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر
(ابن ماجہ ۱۹۶۷‘ مستدرک حاکم ۲/۱۶۵)
لیکن اگر شہوت کو تقوے کی لگام ڈال دی جائے تو اعضاء کو شہوت سے غلط فوائد حاصل کرنے سے روک دے گی‘ تقویٰ نگاہوں کی حفاظت اور شرمگاہ کی حفاظت کرے گا۔ باقی رہا دل کو وساوس سے محفوظ رکھنا تو یہ انسان کے بس کی بات نہیں‘ بلکہ نفس تو ایسے خیالات و افکار پیدا کرتا ہی رہتا ہے حتیٰ کہ نماز کے دوران بھی شیطان انسان کے دل میں مباشرت کے ایسے خیالات ڈالتا رہتا ہے کہ اگر انہیں کسی گھٹیا ذہنیت والے شخص کے سامنے بیان کر دیا جائے تو وہ بھی شرما جائے۔ جبکہ اس کے دل کے احوال کو اللہ خوب جانتا ہے۔ اللہ کے ہاں دل کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا مخلوق کے ہاں زبان کا معاملہ ہے۔ راہ آخرت میں ثواب کے طلبگار کے لیے امور کی بنیاد دل پر ہے۔