ہوں جو اس پاکیزہ تعلق کی حفاظت کا حکم دیتی ہے اور وہ اپنے خاوندوں کی غیر موجودگی میں بھرپور وفاداری کرنے والی ہوں۔
اس قرآنی آیت میں فرمانبردار عورتوں کی صفات کو بیان کرنے کے بعد ان عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو علَم عصیان بلند کریں اور احکام بجا نہ لائیں‘ اور اس نافرمانی کا علاج بھی بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ بستر سے دور کر دینے اور جنسی محرومی کو بیوی کی اصلاح اور تربیت کے عوامل میں سے قرار دیا گیا ہے اور اسے پیار سے سمجھانے کے بعد دوسرے مرتبے پر رکھا ہے کہ جس کے بعد جسمانی سزا ہے۔ اس بتدریج علاج کے ذریعے قرآن نے نفسیاتی حل کی پہلی اینٹ رکھی ہے‘ طبائع کے اختلاف کے پیش نظر صرف ایک علاج نہیں بتایا بلکہ ہر بیماری کی مناسب دوا تجویز کی ہے۔ بعض عورتوں کی نفسیات ایسی ہوتی ہیں کہ ڈانٹ ڈپٹ اور غصے کی نظر ہی ان کے لیے مفید ثابت ہو جاتی ہے جبکہ دیگر کی نفسیات جنسی بائیکاٹ کے قابل ہوتی ہیں‘ بھلا عورت کے لیے اس سے بڑھ کر تکلیف دہ چیز کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے خاوند نے اسے بستر سے دور کر دیاہو؟
شادی تکوینی سنت ہے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّۃً۔ (سورہ الرعد:۳۸)
’’البتہ ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے اور ہم نے انہیں بیویاں اور اولاد بھی دی تھی‘‘
جب انسان لڑکپن سے رجولت میں قدم رکھتا ہے اور دل میں شادی کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اگر اس کے پاس اپنا اور اپنی بیوی کا خرچہ برداشت کرنے کی گنجائش ہو تو اسے جلدی شادی کرنی چاہیے۔ اسی بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’نوجوانو! جو تم میں سے شادی کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کر لے ‘کیونکہ یہ نگاہ اور شرمگاہ کی محافظ ہے … اور جو نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے۔‘‘
(بخاری: ۷/۳‘ مسلم ۱/۲‘ نسائی ۴/۱۶۹‘ مسند احمد ‘/۳۸۷‘۴۲۴)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ اپنے اندر عورت کی طرف جنسی میلان انگڑائی لیتا محسوس کریں تو جلد شادی کر لیں‘ اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اس قدر مالی استطاعت بھی ہو