وہ بے چارہ آپ کے سکون و اطمینان کی خاطر گھر بار کو خیر آباد کہے گا اور پھر آپ کو ایک نئے نکتہ اعتراض کا موقع مل جائے گا۔
’’میرے میاں! گھر کو وقت کم دیتے ہیں!‘‘
پہلی نظر اپنے میاں کی جیب پر ڈالئے۔ اگر ان کی جیب اجازت دیتی ہے تو ضرور فرمائش کردیجئے ،آپ کی محبت و چاہت میں سرشار ہوکر انہیں آپ کی خواہش کی تکمیل عجیب لطف و راحت دے گی۔
لیکن اگر بات ایسی نہیں‘ تو اس خواہش کو وہیں دبا دیجئے‘ ابھرنے نہ دیجئے یہ نقصان دہ ہوجائے گی۔
ایک نظر امہات المومنین کی سیرت پر ڈالیے‘ انہوں نے اپنی خواہشات کو کس طرح قربان کیا‘ اسلام کی خاطر کس قسم کی قربانیاں دیں۔ کیا آپ معمولی قربانی بھی نہیں دے سکتیں؟
یہ ہستیاں آپ کی زندگی کے لیے مشکل راہ ہیں۔ اخروی نجات کا ذریعہ انہی کے نقش پاہیں… پھر یہ کوتاہی کیسی؟
بھلا سادگی اپنا کر زندگی کا مزہ نہیں؟
تو ان سے پوچھئے! جن کی سادگی انہیں لطف دیتی ہے۔
خود آزاری سے پرہیز کیجئے:
خود آزاری‘ خودکشی کے مترادف ہے۔ یہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ بھلا یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟
دنیا میں جو لوگ بھی اپنی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں ان سے پوچھ کر دیکھ لیجئے۔ سب اسی چکر میں بری طرح پھنسے ہوئے نظر آئیں گے۔
بے چارے ہر وقت اپنی محرومی کا رونا روتے دکھائی دیں گے ،ہر وقت اور ہر لمحہ یہ سوچتے رہیں گے کہ کبھی ان پر کوئی نئی مصیبت اور بلا نازل ہونے والی ہے۔
مشاہدہ کرکے دیکھ لیجئے!
آپ اگر کسی قوت بالکل تروتازہ ہوں‘ آپ تصور کرنا شروع کریں کہ آپ کے سر میں درد ہے‘ جسم ٹوٹ رہا ہے۔ منہ بسورناشروع کردیں‘ جسم کو ڈھیلا کردیں۔
چند ثانیے بعد آپ محسوس کریں گی کہ واقعتا آپ کا جسم درد سے ٹوٹ رہا ہے۔ آپ کے جسم میں فتور آرہا ہے۔
لیکن اس کے برعکس اگر آپ کے جسم میں واقعتا ہلکی پھلکی درد سی اٹھ رہی ہے‘ آپ اسے نظر انداز کردیں اور اپنے آپ کو تروتازہ اور فریش