جگہ اس کی حق تلفی نہ ہونے دی۔ جہاں حق تلفی کا خدشہ تھا‘ وہاں فوراً روک تھام کردی۔
میراث میں عورتوں کا حصہ:
زمانہ جاہلیت میں میراث میں صرف مردوں کا حصہ ہوتا تھا۔ عورتو ں کو کچھ حصہ نہ ملتا تھا۔ اسلام نے ہر ایک کا الگ الگ حصہ مقرر کیا:
{لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا} (النساء : ۷)
’’مردوں کا اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو اور عورتوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو ‘تھوڑاہو یا بہت یہ حصہ مقرر ہے ‘‘
عورت اور مرد کی میراث میں تفاوت:
قرآن کریم نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ عورت کا حق میراث مرد کی میراث کا نصف ہے۔
{یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} (النساء : ۱۱)
’’اللہ تعالی تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتاہے کہ ایک مرد کاحصہ دو عورتوں کے برابر ہے ‘‘
اس پر بہت سے لوگوں کو اشکال ہوتا ہے کہ اسلام نے ایک طرف تو مرد اور عورت کے حقوق کے مابین انصاف کا دعویٰ کیا ہے اور دوسری طرف اسلام نے میراث میں عورت کا حق نصف رکھا ہے۔ یہ تو سراسر ناانصافی ہے۔
لیکن اگر ہم اسلام کے مکمل معاشرتی نظام پر نظر کریں تو اس اعتراض کی قلعی کھل جاتی ہے۔
دیکھئے! اسلام نے جن لوگوں کا حصہ مقرر کیا ہے انہیں ذوی الفروض کہا جاتا ہے‘ اور یہ کل 12 افراد ہیں لیکن تفصیل میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے 8 عورتیں اور 4 مرد ہیں۔
اب اگر بطور مثال ہم چار مردوں کو ایک ایک حصہ دے دیں اور ہر عورت کو نصف نصف حصہ تو عورتوں کے حق میں بھی 4 حصے آئیں گے اور مردوں کے حق میں بھی چار۔ تو بات واضح ہوجائے گی کہ اسلام