فامـا الـذی فوقی فـاعرف فضلہ
واتبـع فیــہ الحق والـحق لازم
واما الذی دونی فان قال صنت عن
اجـابـتہ عـرضی و ان لام لائـم
واما الذی مثلی فان زل او ہفـا
تفضلت ان الحلم للفضل حاکم ’’میں ہر برائی کرنے والے کی معافی کو اپنے اوپر لازم کرونگا،اگرچہ اس کی برائیاں میری طرف زیادہ ہو جائیں۔لوگ توتین قسم کے ہی ہیں:معزز اور بلند مرتبہ اور وہ جو عزت اور مرتبے میں آپ کا ہمسر ہے،چنانچہ جو مجھ سے بلند ہے میں ا س کے مرتبے کو جانتا ہوں اور اس میں حق کی اتباع کرتا ہوں،کیونکہ حق قابل اتباع ہے اور جو لوگ فضل اور مرتبے میں مجھ سے نیچے ہیں،اگر وہ کوئی بری بات کہیں تو میں انہیںجو اب دینے میں اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہوں،اگرچہ ملامت کرنے والا ملامت کرتا رہے۔اور وہ شخص جو مرتبے میں میرے برابر ہے اگر وہ کوئی لغزش کرے تو درگزر میں میں اس سے بڑھ جاتاہوں،کیونکہ بردباری فضیلت کا فیصلہ کرتی ہے۔‘‘
امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں:
’’عقلمند کو چاہئے کہ وہ ناگواری کے وقت تمام لوگوں سے درگزر کرے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے اپنے ان گناہوں کی معافی کی امید کرے کہ جنہیں وہ پہلے کر چکا ہے،اس لئے کہ درگزر کرنے والا اجر وثواب حاصل کرنے کے لئے ہی تو درگزر اور معاف کرتا ہے‘‘
لقمان حکیم کی نصیحت:
حضرت لقمان حکیم ؒ نے اپنے بیٹے سے پوچھا:
اے بیٹے !کون سی چیز کم ہے؟
کون سی چیز زیادہ ہے؟
کون سی چیز سب سے زیادہ میٹھی ہے؟
کون سی چیز ٹھنڈی ہے؟
کون سی چیز مانوس ہے؟
کون سی چیز قابل نفرت ہے؟
کون سی چیز انتہائی قریب ہے؟
اور کون سی چیز انتہائی دور ہے؟