’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جوا فراد اور جو قوم خلوص اور بھائی چارگی کے جذبے سے سرشار ہو تو وہ ذہنی امراض میں مبتلا ہونے سے بچ جاتی ہے۔ آج کی مادہ پرست دنیا میں جس تیزی سے انسانیت سوزی اور آدمیت کشی بھیڑ بکریوں کی طرح ہورہی ہے۔ سب پر روشن و عیاں ہے۔ ہر شخص میں نفرت اور حقارت کا جذبہ کار فرما ہے۔ بعض لوگ تو کسی سے خوش رہ ہی نہیں سکتے‘ انہیں کسی کی رفاقت ہی پسند نہیں ہوتی۔ ان کو سوائے اپنی ذات کے کسی کی ذات سے دلچسپی نہیں ہوتی‘ یاد رکھیے! ایسے لوگ جذباتی بے راہ روی اور شدید ذہنی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں ‘ان کو جس کسی سے بھی واسطہ پڑتا ہے …یہ سب سے نفرت کا جذبہ رکھتے ہیں۔
یہ آدم بیزار اپنی ذہنی بیماری کی وجہ سے اتنا بھی محسوس کرنے سے معذور ہوتے ہیں کہ انہیں اسی دنیا میں اور اسی دنیا کے لوگوں میں زندگی بسر کرنا ہے‘ حالانکہ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دنیا کے لوگوں کے درمیان تعلق اور تعاون کے بغیر ان کی اپنی کوئی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوسکتی۔ وہ ایک دوسرے کے محتاج ہیں‘ اور باہمی تعاون کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ آدم بیزار ہوتے ہیں‘ باہمی محبت کا جذبہ ان میں مفقود رہتا ہے وہ دراصل تنگ مزاجی اور چڑچڑے پن کا شکار ہوتے ہیں۔
چڑچڑا پن ختم کیجئے:
اگر انسان اپنی خرابی اور عیب کو برا جاننے لگے تو اس سے چھٹکارا پانا آسان ہوجاتا ہے۔ چڑچڑا پن اور نفرت جس کا مختصر سا دائرہ تعارف پیچھے گزرا‘ ایک بہت بڑا مرض ہے۔
اس قسم کی نفرتیں اور چڑچڑا پن انہی لوگوں کے حصے میں آتے ہیں جو کنوئیں کے مینڈک کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اول تو کسی سے دوستی کرتے ہی نہیں اور اگر اتفاق سے کسی سے ربط ہونے لگے تو اسے بھی وہ فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنے چڑچڑے پن کو چھپانے کی خاطر اس فراموشی کا مجرم اپنے آپ کو نہیں ٹھہراتے بلکہ اس کی تمام تر ذمہ داری دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔