نے بالکل مساوی تقسیم کی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے عورت کے تمام اخراجات کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عورت کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اسے میراث میں سے بھی حصہ دیا ہے۔
مہر:
اسی سورت مبارکہ میں اس بات کا بیان بھی ہے کہ مرد عورت کو اپنی مرضی سے مہر ادا نہیں کرسکتا بلکہ دونوں کی رضامندگی سے جو رقم مقرر ہوگی وہ مرد کے ذمے ادا کرنا لازمی ہوگی۔ یعنی عورت کی رضا کا بھی مکمل خیال رکھا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنّ نَحْلَۃً فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا} (النساء : ۴)
’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیدو پھر اگر وہ اس میں سے اپنی خوشی سے تمہیں کچھ معاف کردیں تو تم اسے مزے دار خوشگوار سمجھ کر کھاؤ‘‘
عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم:
اسلام نے جہاں مرد کو عورت پر اختیارات دیئے ہیں‘ وہیں اسے عورت کے ساتھ حسن معاشرت کا بھی حکم دیا ہے۔ اگر بالفرض مرد حسن معاشرت میں کمی بیشی کرے تو عورت کو بھی کچھ اختیارات سے نوازا ہے۔ ارشاد ہے:
{وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ} (النساء : ۱۹)
’’اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو‘‘
یعنی اپنے اقوال اورافعال کو خوبصورت بناؤ۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیویوں کے اقوال‘ افعال درست ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حسن معاشرت کو یوں بیان فرمایا:
خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی (رواہ الترمذی)
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہترین رویہ رکھنے والا ہو۔ اور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ تم سب سے بہتر رویہ رکھنے والا ہوں‘‘۔
مرد ہر حال میں عورت کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے: