یہ بات اتنی ہی آسان ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر کیا تھا ؟
لیکن ناپسندیدگی اور ناگواری کو اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں پیدا کردیاہے، بھلا وہ ان سے کیسے بچ سکتاہے ؟ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر ان دونوں میں سے ایک اپنی پسند کو دوسرے کی پسند پہ قربان کردے یا اپنے نفس کو اس بات پہ آمادہ کرلے کہ اس کا نفس نا پسندیدگی کی راہ کو چھوڑ کر پسندیدگی کی طرف آجائے ‘تو یہ نسخہ اس کا بہترین حل ہے ،لیکن یہ راستہ انتہائی دشوار اور کٹھن ہے ۔
جب یہ بات برحق ہے کہ مرد حاکم ہے اور عورت محکوم… تو کیا اس معاملہ کی ذمہ داری عورت اپنے کندھوں پر نہیں لے سکتی ؟ یقینا اس معاملہ میں آپ کو غور کرنا ہوگا اور اپنی خوشگوار زندگی کی بقا ء کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
یاد رکھئے !کامیاب ازدواجی زندگی زوجین میں سے ہر ایک کی طرف سے قربانی کی متقاضی ہوتی ہے ، اگر وسعت ظرفی سے کام نہ لیا جائے اور دوسرے کے جذبات کا لحاظ نہ رکھا جائے تو ہر ایک جذباتیت کا شکار ہوجائے گا اور دماغ سے کام لینا بند کرکے یہ فرض کر لے گا کہ اس کا نقطہ نظر درست ہے اور فریق ثانی غلطی پر ہے اور کٹ حجتی کر رہا ہے ۔یاد رکھئے! ناقابل فراموش کامیابیاں وہ ہوتی ہیں جن پر جاں فشانی کے خون کے دھبے اور مایوسی کے زخموں کے نشانات ہوتے ہیں ،مایوسیوں کے بادلوں میں سے ہی کامیابی کے آفتاب کی کرنیںنمودار ہوتی ہیں اور کٹھن حالات میں صبر و ضبط کے ذریعے ہی بہتری کی امید دکھائی دیتی ہے ۔
ہر گھر میں معمولی جھگڑے روز مرہ کا معمول ہے، لیکن اگر ایسی صورت حال میں فریقین معقول رویہ اختیا ر کریں‘ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں تو وہ جلد ہی یہ بات محسوس کرلیں گے کہ ان چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل اکثر بہت آسان اور سادہ ہوتاہے ۔
ازدواجی جھگڑے:
میاں بیوی خاندان کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ،اگر ان دونوں کی زندگی خوشگوار ہوگی تو خاندان کے ہر فرد کی زندگی خوشگوار ہوگی، ان کے جھگڑے اور الجھنیں پورے خاندان کی تباہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔اور یوں صرف ایک ہی خاندان نہیں بلکہ دو خاندانوں کی زندگیوں کی خوشگواری داؤ پر لگ جائے گی۔