ایسا نہ ہو کہ وہ کام عورت کی فطرت کے خلاف ہو۔ اس کی عزت وناموس پر اس سے حرف آتا ہویا اس کے ولی یا خاوند کی عزت اس کے کام سے مجروح ہوتی ہو۔ جیسے وہ بڑھئی کا کام کرنے لگے‘ یا گاڑیاں ٹھیک کرنی شروع کردے یا سڑکوں پر جھاڑو دینے لگے وغیرہ وغیرہ۔
گھر کے کاموں پر حرج نہ آئے:
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
والمراۃ راعیۃ فی بیت بعلھا وولدہ وھی مسؤلۃ عنھم
یعنی جس طرح مرد پرگھر کی ذمہ داریاں ہیں‘ اسی طرح عورت بھی اپنے خاوند کے گھر کی سربراہ ہے۔ اس پر اُس کے گھر کی ذمہ داریاں ہیں۔ جنہیں نبھانا اس پر فرض ہے۔
چنانچہ اگر گھنٹوں کام میں لگی رہے اور گھر پر توجہ نہ کرے تو بہت سی خرابیاں جنم لیں گی۔ جن کا ہم نے تفصیلی ذکر کیا ہے۔ کیونکہ اس کی ذمہ داریوں پر معاشرے کی بقاء موقوف ہے۔ اگر اس نے اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کی تو اس کا بالواسطہ اثر معاشرے پر پڑے گا اور پورا معاشرہ متاثر ہوگا۔
اجنبی سے معاملہ کیسے کرے؟
اول تو عورت کو اختلاط سے بچنا چاہیے بالفرض اگر اسے کسی اجنبی سے معاملہ کرنا پڑ ہی جاتا ہے تو پھر وہ اپنے محرم یا خاوند کے ہمراہ اس سے معاملہ کرے۔ اگر سفر کی ضرورت پیش آئے تو سفر میں بھی ان میں سے کسی کو ہمراہ رکھے۔
عورت کی کمائی کا حکم:
یہ بات ذہین نشین کرلینی چاہیے کہ عورت جو کچھ کمائے گی اس کی وہ تنہا مالک ہوگی۔ خاوند‘ یا باپ یا ولی کا اس میں کوئی حق نہ ہوگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ} (النساء : ۳۲)
اگر بالفرض ولی یا خاوند کو اس کے مال میں سے بامر مجبوری کچھ لینا بھی پڑے تو وہ بھی اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں۔
کیونکہ حضور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لایحل مال امریٔ مسلم الا عن طیب نفسہ
(رواہ البخاری)