ہے۔ اسی غلط خیال کا نتیجہ ہے کہ اکثر طالب علم صبح شام تک پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں ،اور اسی طرح اپنی قوتوں کو تھکا کر بیکار کرلیتے ہیں۔
پندرہ سولہ گھنٹے تک لگاتار پڑھنے کے مقابلے میںیہ اچھا ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ صرف سات آٹھ گھنٹے پڑھ لیا جائے زیادہ پڑھنے سے دماغ اور اس کی قوتیں تھک جاتی ہیں اوریہ تھکن دھیرے دھیرے انہیں بے کار کر دیتی ہے۔
دوا کی بجائے غذا کی طرف دھیان دیجئے:
چلتے پھرتے ‘کام کرتے‘لوگوں کو مریض کہنا مبالغہ معلوم ہوگا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب لوگ نہیں تو ہر تیسرا آدمی ضرور مریض ہوگا‘ کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوگا‘ چاہے وہ مرض چھوٹا ہو یا بڑا۔
ایسا کیوں ہے‘ ایسا کیوں ہوتاہے؟
اس طرف بہت کم لوگ دھیان دیتے ہیں ۔اگر اس طرف توجہ کی جائے تو بہت کم لوگوں کو ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑے۔
ازالہ مرض و اعادہ صحت میں غذا کو بہت بڑا دخل ہے ۔کیا کھانا چاہئے؟ کس چیز سے پرہیز کرنا چاہئے؟ صحت کی حالت میں اگر انسان اس نکتے کو سمجھ لے اور اس پر عمل کر لے تو اکثر امراض کا وجود نا پید ہوجائے۔
حکیم بقراط نے لکھا ہے :
’’لوگوں نے تندرستی کی حالت میں درندوں کی طرح کھا کر اپنے آپ کو بیمار ڈال دیا ،اور جب ہم نے ان کا علاج کیا تو انہیں چڑیوں کی غذا دی اور تندرست بنادیا‘‘
حکیم ابو الحسن قرآنی نے لکھا ہے:
’’بوڑھے آدمی کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ بات یہ ہے کہ اس کے پاس اعلی درجے کا باورچی ہو۔کیونکہ عمدہ غذا پائے گا تو زیادہ کھا کر بیمار پڑجائے گا‘‘
ڈاکٹر سر ولیم کوپر نے لکھا ہے:
’’جو لوگ عوام کو یقین دلادیں کہ وہ غذا کے انتخاب میں جہالت سے کام لیتے ہیں ‘وہ بنی نوع انسان پر بھاپ اور بجلی کے موجدوں سے زیادہ برکات نازل کریں گے ‘‘
ڈاکٹر سر ہسٹر تھامس نے دقیق تحقیقات کے بعد یہ فیصلہ دیا: