نے بھی زندگی گزاری ہے ‘زندگی کے ہر موڑ پہ اس نے نت نئے تجربات سے سبق سیکھا ہے ،کچھ کھویا ہے‘ کچھ پایا ہے۔ اگر وہ آپ کو کفایت شعاری کا درس دے یا فضول خرچی سے روکے تو آخر اس میں کیا خرابی ہے ؟
ہر مشورے کو یا تبصرے کو اگر ٹھنڈے دل سے سن لیا جائے اور اچھے مشوروں کو قبول کر لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ بہت سے جھگڑے ختم ہوجائیں گے‘ بلکہ زندگی میں بڑی خوشگوار تبدیلی ہوجائے گی ۔اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے :
’’جو کچھ اچھا ہے اسے لے لو اور جو کچھ برا ہے اسے چھوڑ دو‘‘
آپ کا سسرال … اور میکہ:
بہو نہ جانے کیوں یہ سوچ لیتی ہے کہ ساس جب بھی اس کے میکے والوں کا تذکرہ کرے گی تو ان کی ہتک ہی کرے گی ۔ چنانچہ سسرال میں میکے والوں کی طرف سے مقابلے کی ذمہ داری بہو اپنے ذمہ لے لیتی ہے ‘ جہاں کسی نے کوئی بات کی بہو نے ان سے لڑائی لے لی ۔
سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے میکے والوں میں کوئی خرابی نہیں ہے تو پھر آپ چڑتی کیوں ہیں ؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کی زبان پر آپ کے میکے والوں کا جو تذکرہ آیا ہے اگر وہ محض تذکرہ ہی تھا تو آپ نے بلا وجہ تعلقات خراب کر دیئے ، اور اگر یہ برائی کرنے کا بہانہ تھا تو آپ نے اپنی زبان کو کھولنے کی وجہ سے ایک اور خرابی کا اضافہ کردیا ۔
اگر آپ اس بات کا اظہار کرتیں کہ آپ کی ہمدردیاں سسرال والوں کے ساتھ ہیں تو شاید آپ ان کی محبت حاصل کرسکتیں۔
ادھر اکثر دلہنیں اس بات میں بڑی شان محسوس کرتی ہیں کہ جب کبھی سسرال والوں کے درمیان بیٹھیں تو اپنے میکے والوں کی بڑائی بیان کریں اور اس بڑائی میں عموماً زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے جاتے ہیں ، بڑھ بڑھ کر کیئے ہوئے تذکرے اگر کسی کو برے لگ گئے تو رنجشوں کا ایک نیا باب کھل جائے گا ۔
ذرا سوچیئے تو سہی! اس طرح کی شان و شوکت سے کیا حاصل ہوا؟ سوائے جھگڑے اور فساد کے کچھ بھی نہیں ،مانا کہ آپ کے میکے والوں میں بہت سی خوبیاں ہیں لیکن …
’’مشک تو وہی ہے جو خود اپنی خوشبو بکھیرے ‘اس خوشبو کا کیا