اگر ضرورت کے تحت آپ کو کہیں جانا پڑ بھی جائے تو خاوند یا محرم کے ہمراہ جایئے۔ تنہا نکلنے سے گریز کیجئے۔ کیونکہ اگر عورت تنہا جا رہی ہو تو وہ بیمار دلوں کے لیے مرکز تلذذ بن جاتی ہے۔ چلتے ہوئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کو ذہن میں رکھیے۔
لیس للنساء وسط الطریق
’’راستے کا درمیان خواتین کے لیے نہیں‘‘۔
مکمل حجاب اور چال میں سادگی اپنایئے۔ باہر نکلتے ہوئے وہ لباس پہنیے جسے خوشبو نہ لگی ہو۔ چلتے ہوئے اس حدیث کو بھی ذہن میں جگہ دیجئے۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جہنمیوں کی ایک قسم بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایسی خواتین جو لباس پہنے ہوئے بھی برہنہ ہوں گی‘ مٹک مٹک کر چلتی ہوں گی‘ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہوں گی‘ ان کے سر یوں ہوں گے جیسے بختی اونٹوں کی کوہان۔یہ نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھ سکیں گی‘‘۔
خاوند کے ساتھ رویہ:
یہ بات آپ کے ذہن میں ہونی چاہیے کہ آپ نے انسان سے شادی کی ہے کسی فرشتے سے نہیں‘ اور اس کا تمام عیوب سے پاک ہونا ممکن نہیں۔ قدیم زمانے کے لوگوں کا ایک قول ہے:
کفی بالمرء شرفا أن تعد معایبہ
’’آدمی کی عزت و تکریم کے لیے اسی قدر کافی ہے کہ لوگ اس کے عیب شمار کرتے ہوں‘‘۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کا رویہ اپنے خاوند کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے۔
دینی اعتبار سے:
آپ کو جہاں خود دینداری اپنانے کی ضرورت ہے وہیں اپنے خاوند کو بھی دین کی راہ دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اطاعت خداوندی میں ان کی مدد کرنا بھی آپ کے لیے ضروری ہے۔ذرا! ایک حدیث تو ذہن میں لایئے۔
رحم اللہ رجلاً ایقظ امرأتہ لتصلی باللیل فابت قنضح فی وجھھا الماء ورحم اللہ امرأۃ ایقظت زوجھا لیصلی باللیل فابی فنضحت فی وجھہ الماء
’’اللہ پاک رحم فرمائیں اس مرد پر جو اپنی بیوی کو تہجد کی نماز ادا کرنے