درازی کی‘ لیکن اس روحانی اور ازدواجی تعلق کی بنا پر کیسے اسے پی گئے؟ یہی وہ تعلق ہے جو دلی سکون کا باعث ہے۔
ایک شخص آپؓ کے پاس اپنی بیوی کی بدخلق کی شکایت لے کر آیا‘ اس نے حضرت عمرؓ کی بیوی کو زبان درازی کرتے دیکھا،جبکہ آپؓ خاموش ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اسے پلٹتے دیکھتا تو پکار کر کہا:
بھائی! کیا کام ہے؟
کہنے لگا: میں آپ کے پاس اپنی بیوی کی زبان درازی کی شکایت لے کر آیا تھا، یہاں دیکھا کہ آپ کی بیوی آپ پر زبان دراز ہے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: میرے ذمے اس کے جو حقوق ہیں ان کی وجہ سے میں یہ سب کچھ برداشت کرتا ہوں، کیونکہ یہ میرا کھانا بناتی ہے‘ میری روٹی پکاتی ہے‘ میرے کپڑے دھوتی ہے اور میرے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔
حالانکہ یہ سب اس کے ذمے نہیں‘ اسی کی وجہ سے میرا دل حرام سے باز رہتا ہے ۔
تو وہ شخص کہنے لگا: میری بیوی بھی اسی طرح ہے۔
تو فرمایا: بھائی! پھر اس کی باتوں کو برداشت کرو‘ مختصر سی زندگی ہے اور موت کا وقت قریب ہے۔
بیوی خاوند کے سکون کا باعث ہے‘ پیار‘ محبت اور پاکیزگی کے سائے میں اپنی جنسی پیاس اس سے بجھاتا ہے‘ اس کا دل حرام سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعضاء گناہ کے گڑھے میں پھسلنے سے بچے رہتے ہیں۔
خاندانی تعلق میں قلبی سکون اور روحانی آسائش کے حصول کے لیے اسلام نے بیوی کے کچھ حقوق اور خاوند کے لیے کچھ حدود مقرر کی ہیں۔ ان دونوں کے لیے زندگی کی ایک راہ متعین کی ہے کہ جس پر وہ حدود سے تجاوز کیے بغیر محو سفر رہیں تاکہ زندگی کی گاڑی اختلافات اور نزاعات سے دور رہتے ہوئے رواں دواں رہے۔
ہر ایک کے حقوق ہیں‘ ہر شریک پر دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا پاس رکھنا ضروری ہے۔ جب خاوند بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے تو خاوند کے راضی ہونے تک وہ اللہ کی ناراضگی کو مول لیے رکھتی ہے۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جب خاوند بیوی کو حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے اگرچہ وہ تنور ہی پر کیوں نہ ہو‘‘۔