تقریب میں شریک ہے۔ مردنے پینٹ کوٹ زیب تن کررکھا ہے۔ کئی سویٹروں کے بعد شرٹ آتی ہے اور پھر اوپر کوٹ ہے۔ نیچے جرابوں کے اوپر بوٹ کس رکھے ہیں۔
دوسری نگاہ محترمہ پر ڈالئے! ایک چھوٹی سی قمیص جوکندھوں سے شروع ہوکر نصف رانوں سے اوپر ختم ہوجاتی ہے۔ گلا جس قدر آگے سے کھلا ہے اسی قدر پیچھے سے بھی‘ شلوار اس قدر مختصر کہ نصف پنڈلیاں باہر کو نکل رہی ہیں۔ سر پر ڈوپٹہ بھی نہیں کہ شاید کچھ حرارت پہنچ جائے۔
ارے یہ کیا! ظلم کی انتہاء! نہیں صاحب؟ یہ جدید فیشن ہے۔ جان چلی جائے ‘ بھلا فیشن کیوں چھوٹے؟
عورت بے چاری کس قدر سیدھی سادھی ہے؟ اسے تومردکے اس رویے کے خلاف بغاوت کردینی چاہیے۔ لیکن وہ اپنی نادانی کی وجہ سے اسے تہذیب کا تقاضا سمجھ بیٹھی ہے۔ اپنے جسم کی نمائش پہ ندامت سے اس کا سر جھکنا تو درکنار فخر و غرور سے اونچا ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر عورت اسلامی حدود کی پابندی کرے تو اس کا وجود مرد کو زندہ لاش محسوس ہونے لگتا ہے‘ کیونکہ اس پرنگاہ پڑتے ہی جذبات میں ہیجان پیدا نہیں ہوتا اور مرد کو تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ چنانچہ مرد اس کی آزادی یعنی عریانی کا نعرہ بلند کرتا ہے اور وہ بے چاری عقل سے ماوار ہوکر اس کی ہم نوا بن جاتی ہے اور دوسروں لفظوں میں اس کی تسکین کا سامان بن جاتی ہے۔
چہرے کے پردے کے بارے میں تفصیلی فتویٰ
کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارہ میں کہ ہمارے علاقے میں ایک پروفیسر صاحب ہیں جو روشن خیال ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت کو اسلام نے چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہیں دیا بلکہ یہ مولوی لوگوں کے ڈھکوسلے ہیں۔ یہ ان کی اپنی باتیں ہیں جو عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا مسئلہ بتاتے ہیں ‘وہ شدت پسند ہیں،موصوف کا کہنا ہے کہ میںقرآن مجید سے ثبوت پیش کرسکتاہوں کہ عورت کے ہاتھ ،پیر اور چہرہ ڈھانپنا ضروری نہیں ۔ اللہ تعالی نے خود اس کی اجازت مرحمت فرمائی ہے ۔ (جیسا کہ سورۃ نورآیت :۳۱میں ہے)جناب مفتی صاحب ! اگر اس مسئلے کو مفصل طور سے آپ تحریر فرمادیں تو بہت سارے لوگ گمراہی سے بچ جائیں گے۔ امید ہے کہ بحوالہ مفصل طور