(طبرانی ۸/۳۹۸‘ مجمع الزوائد‘ ۴/۲۹۶)
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جو کوئی آدمی اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو آسمان والا اس پر اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اس کا خاوند راضی نہ ہو جائے‘‘۔
خاوند کی رضا کا بدلہ کیا ہے؟
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتی ہیں:
’’جو عورت اس حال میں فوت ہو کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔ (ترمذی‘ ابن ماجہ‘ حاکم)
ایک خاتون حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپؐ کے پاس خواتین کی سفیر بن کر آئی ہوں‘ یہ جو جہاد اللہ پاک نے مردوں پر فرض کیا ہے‘ اگر وہ اس میں فاتح بن جائیں تو اجر پاتے ہیں اور اگر شہید ہو جائیں تو رب کے ہاں سے رزق پاتے اور زندہ رہتے ہیں۔ ہم عورتیں جو ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں، ہمارے لیے کیا اجر ہے؟
تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو عورت بھی تمہیں ملے اس تک یہ بات پہنچا دو کہ خاوند کے حقوق پہچاننا اور اس کی اطاعت کرنا اس کے برابر ہے۔ (یاد رکھنا) تم میں سے بہت کم ایسا کرنے والی ہوں گی‘‘۔
(مجمع الزوائد ۴/۳۰۵)
اسلام نے مرد کو عزت بخشی ہے:
’’اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدے کا حکم کرتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے‘‘۔
کیونکہ اسلام نے گھریلو امورکی ریاست اور نظامت مرد کے سپرد کی ہے کیونکہ وہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے زیادہ قابل ہے۔ مسائل کا حل بخوبی کر سکتا ہے۔ اس کی جسمانی ساخت عورت سے زیادہ مضبوط ہے… جسمانی بساطت کے ساتھ اللہ پاک نے اسے پختگی رائے بھی عطاء کی ہے۔ باقی رہی عورت تو وہ جسمانی اور تکوینی اعتبار سے کمزور جسم اور کمزور دل ہے۔ مامتا اس پر غالب ہے… اسی جسمانی کمزوری کے پیش نظر بعض اوقات اس سے کچھ عبادات بھی ساقط ہو جاتی ہیں‘ چنانچہ ماہواری اور نفاس کے دوران وہ نماز‘ روزے کی مکلف نہیں رہتی۔