تمہیں کہاں دھکیل لائی ہیں…!‘‘
آپ دیکھتی ہیں کہ معاشرتی فطرت اسی اسلام کے حکم کے تحت ہے جو شادی کا حکم دیتا اور فضائل کو پسند کرتا ہے اور لوگوں میں فواحش کے پھیلاؤ کو ناپسند کرتا ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ گھٹیا کلچر ہماری نسلوں میں جڑ پکڑ رہا ہے حتی کہ آپ دیکھیں گی کہ اکثر لوگوں کی عمریں کنوارے پن کی حالت ہی میں ۴۰ اور ۵۰ سے تجاوز کر رہی ہیں۔ ان کے نفس میں کسی قسم کی حیا نہیں کہ جو اسے لوگوں کے سامنے اس کی پرائیویٹ زندگی کی گندیوں کی وجہ سے شرمندہ کرے… مزید افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ لوگوں کا رویہ بھی اظہار ملامت کا باعث نہیں بنتا بلکہ وہ اس کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیے رکھتے ہیں جو کسی شریف آدمی کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ یہ سب اس تبدیلی کا مظہر ہیں جسے ہم شدید رنج و الم میں دیکھ رہے ہیں۔
اسی وجہ سے ہم علامہ ابن حزم کو دیکھتے ہیں کہ وہ صاحب استطاعت مسلمان پر شادی کو فرض قرار دیتے ہیں۔ بایں طور کہ جو اسے ترک کرے یا تغافل برتے تو وہ ایسا ہی گناہگار ہے جیسے اس نے فرائض اسلام میں سے کسی فرض کو ترک کیا ہے۔ ائمہ اور علماء کا ایک بڑا گروہ شادی کو واجب کہتا ہے۔
اسی بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’لاصرورۃ فی الاسلام‘‘
(ابو داؤد: ۱۷۲۹‘ مسند احمد ۱/۳۱۲)
صرورۃ سے مراد وہ شخص ہے جو شادی یا حج نہ کرے اور پیسہ جمع کیے رکھے اور اسے باہر نہ نکالے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ جو آدمی مالدار ہو اور شادی کر سکتا ہو لیکن نہ کرے تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ (الترغیب و الترہیب: ۳/۴۳)
باقی جو آدمی صاحب استطاعت نہ ہو تو حضورؐ کے ارشاد کے مطابق وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ اس کی طبیعت کی گرمی اور ہیجان کو روک دے گا۔
شادی… عبادت اور فطرت