اس سورت مبارکہ میں مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں‘ اگرچہ وہ ان کی کچھ باتوں کو ناپسند بھی کر رہے ہوں۔ کیونکہ اسی میں ان کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں ہیں:
{فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا} (النساء : ۱۹)
’’اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ممکن ہے تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو ‘‘
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مرد عورت کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور اللہ پاک اسے نیک اولاد عطا کردیں اور یہ اس کی بھلائی کا ذریعہ بن جائے۔
بہرحال عورتوں کے لیے یہ بھی اسلام کی طرف سے بہت بڑا تحفہ ہے کہ مردوں کو ہر حال میں ان کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خواتین حسن معاشرت ترک کردیں۔ بلکہ مسابقت رکھیں۔ اگر خاوند حسن معاشرت رکھ رہا ہے تو آپ اس سے آگے بڑھیں اور مزید اچھے طریقے سے اسے اپنائیں۔
مرد حاکم اور عورت محکوم:
اسلام نے مرد کو حاکم اور عورت کو محکوم بنایا ہے۔
{اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ}
اور طلاق کا مختار مرد کو بنایا ہے۔ عورت کے ہاتھ میں طلاق کا اختیار نہیں دیا۔ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن ان سے غلط مطلب اخذ نہیں کرنا چاہیے۔ یورپ زدہ عورتیں ان سے یہ مطلب لیتی ہیں کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ ان کی آزادی سلب کرلی گئی ہے۔ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ یہ کم فہمی ہے۔
اس دنیا کا طبعی اور فطرتی نظام ایسا ہے کہ وہ حاکم کی برتری کے بغیر نہیں چل سکتا۔ دیکھئے! کسی مملکت کا نظام آپ کو اگر بہتر نظر آرہا ہو مثلاً رعایا خوش ہو‘ ان میں کسی طرح جھگڑے نہ ہوں‘ تو اس حسین نظام کا سبب یہ نہیں ہے کہ اس میں سب باشندے حاکم ہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے بعض کو حاکم اور بعض کو محکوم بنارکھا ہے۔
ان میں بعض افسر ہیں اور بعض ان کے ماتحت۔ چھوٹے‘ بڑے‘ حاکم محکوم‘ افسر و ماتحت‘ آمرو مامور کے سلسلے کا قیام ہی اس مملکت کی ترقی و خوشی کا ضامن ہے۔ اگر اس کے باشندے سب کے سب اس طرح