مکمل حساب لکھ لیں۔
مہینے بھر کے بعد اسے چیک کیجئے‘ کل میزان نکالیے‘ آمدنی اور خرچ پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالیے‘ اگر دونوں کا تناسب ٹھیک ہے تو بہت بہتر‘ ورنہ اس تناسب کو درست رکھنے کے لیے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کیجیے۔ انسانی ضروریات روز بروز بڑھتی ہیں‘ کم نہیں ہوتیں‘ اگر انہیں اس حد پر رکھا جائے کہ ضروریات قابو میں رہیں تو یہی مفید رہتا ہے‘ ہر وقت ان پر نگاہ ڈالی جائے جیسے ہی اخراجات کا تناسب آمدنی سے معمولی سا اوپر ہو اسے وہیں پکڑ لیجئے اور نیچے کر دیجئے۔
شوہر کی خدمت:
شوہر اور بیوی زندگی میں ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں لیکن شوہر کی ذمہ داریاں بیوی سے زیادہ ہوتی ہیں۔ عورت چونکہ ضعیف الخلقت ہے لہٰذا شریعت نے اس پر بوجھ بھی زیادہ نہیں ڈالا۔اسے کام کاج کا منصب دیا اور عورت سے کہا کہ وہ اس کی خدمت میں لگ جائے۔
عورت کو چاہیے کہ اس کا خاوند اگر مفلس ہو تو تونگر سمجھے‘ اس کی عزت کرے‘ جو خاوند کہے اس کے خلاف نہ کرے‘ اس کی اجازت کے بغیر کسی کام میں نہ پڑے‘ ہر جگہ خاوند کی خوشی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھے‘ ہر وقت خاوند کے آرام کی فکر میں لگی رہے۔
خاوند جس کام کا کہے اسے ایسے خوش اسلوبی سے کرے کہ وہ خوش ہو جائے‘ انہیں اس قدر آرام دیا جائے کہ وہ بے فکر ہو جائیں‘ اور انہیں اپنی آمدنی کی قلت کا احساس تک نہ ہو۔ زندہ دل ہو کر آپ بھی رہیں اور وہ بھی۔ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور اپنے ہم نشینوں میں عزت پائیں۔
ان کی ضرورتوں پر نظر رکھیے‘ وقت سے پہلے ان کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کریں‘ جہاں تک ممکن ہو سکے انہیں اچھا کھلائیں‘ مفلسی کا دور ہو تو کپڑے خود سی کر انہیں پہنا دیں۔
ان سے کوئی ایسی فرمائش نہ کریں جس کے بارے میں آپ کا اندیشہ ہو کہ وہ پوری نہ کر سکیں گے‘ انہیں فکر لاحق ہو گی‘ اور انہیں ملال ہو گا۔ اگر آپ کی قسمت میں وہ چیز ہو گی تو بن فرمائش ہی مل جائے گی فرمائش بے کار ہے۔
جو آپ کی ضرورت ہو حتی المقدور اسے پورا کر لیجیے‘ مردوں کو تکلیف دینے سے گریز ہی بہتر ہے۔ اگر شوہر متحمل المزاج نہ ہو تو اسے سخت تکلیف ہو گی۔