کے پاس سے گزر نہیں‘‘۔
(Encyclopedia of religion & Ethics. Vol.v,P271)
Ray Strachey ہندوستان کے بارے میں لکھتا ہے:
’’رگ وید میں عورتوں کو پست اور حقیر مقام دیا گیا ہے بعد میں یہ سمجھا جانے لگا کہ وہ روحانی طور پر ناقابل اعتبار بلکہ تقریباً بے روح ہے اور موت کے بعد مردوں کی نیکیوں کے بغیر اسے بقاء حاصل نہیں ہو سکتی۔
عورتیں اتنی ہی بری ہیں جتنا جھوٹ۔ یہ ایک مسلم حقیقت تھی۔ عورت کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ مردوں کو اس دنیا میں غلط راستے پر ڈالے۔ اسی لیے عقلمند عورتوں کی صحبت میں بے فکر ہو کر نہیں بیٹھتے۔
(Universal History of the world- Vol-1, P:378)
’’منو کے قانون کے مطابق عورت ہمیشہ کمزور اور بے وفا سمجھی گئی اگر اس کا شوہر مر جاتا تو وہ کبھی دوسری شادی نہ کر سکتی۔ جبکہ اکثر بیوائیں اپنے شوہر کے ساتھ ’’ستی‘‘ ہو جاتیں۔ ‘‘
(تمدن ہند: 238)
Mr. Ray Strachey چین میں عورت کی حیثیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’چین میں چھوٹی لڑکیوں کے پیروں کو کاٹھ مارنے کی رسم کا مقصد یہ تھا کہ انہیں بے بس اور نازک رکھا جائے‘‘۔
(Universal History of the world- P:378)
جبکہ انگلستان میں عورت کی حیثیت بھی کچھ اعلیٰ نہ تھی:
’’وہاں اسے ہر قسم کے شہری حقوق سے محروم رکھا گیا تھا‘ تعلیم کے دروازے اس پر بند تھے۔ صرف چھوٹے درجے کی مزدوری کے علاوہ کوئی کام نہیں کر سکتی تھی اور شادی کے وقت اسے اپنی ساری املاک سے دستبردار ہونا پڑتا تھا‘‘۔
(تہذیب و تمدن پر اسلام کے اثرات و احسانات)
عورت اور زمانہ جاہلیت
جزیرۃ العرب میں عورت سے بد معاملگی دنیا کے سارے ممالک سے زیادہ تھی اور اگر بعض جگہ اس سے اچھا معاملہ کیا بھی جاتا تھا تو وہ اس وجہ سے تھا کہ وہ یا تو کسی عرب رئیس کی صاحب زادی یا کسی محبوب بیٹے کی ماں ہے۔
اہل عرب‘ عورت کے وجود کو موجب ذلت و عار سمجھتے تھے‘ ان