ہیں؟ ان اسباب پر غور کیجیے اور خوب سوچ و بچار کر کے قدم اٹھایئے۔ اگر آپ نے اس سے قبل ہی قدم اٹھا لیے تو…!
نکاح… غلامی:
علماء نے نکاح کو ایک قسم کی غلامی کہا ہے۔ جس طرح غلام پر اپنے آقا کے احکام کی اطاعت واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی اپنے خاوند کی اطاعت واجب ہے۔
امام ذہبی فرماتے ہیں:
’’عورت کے لیے یہ جان لینا مناسب ہے کہ وہ سمجھ لے کہ وہ اپنے خاوند کی مملوکہ ہے۔ لہٰذا نہ تو اپنی ذات میں‘ نہ اس کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرے‘‘۔
(الکبائر: ۱۸۸)
جبکہ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’قابل اعتماد قول یہ ہے کہ نکاح غلامی کی ایک قسم ہے۔ چنانچہ عورت مرد کی مملوکہ ہے۔ خاوند کے حکم کی اطاعت عورت پر واجب ہے جبکہ وہ حکم شریعت کی نافرمانی کا نہ ہو‘‘۔ (احیاء العلوم: ۳/۴۳)
اگر خاوند ظالم ہو تو…!
یاد رکھیے! آپ کا خاوند آپ کے لیے بمنزلہ امیراور حاکم کے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’اس کی بات سن اور حکم مان‘ اگرچہ وہ تیرا مال کھائے اور تیری کمر پیٹے ‘‘۔
اللہ پاک نے آپ کے خاوند کو جو آپ پر حق دیا ہے وہ حق ایک امانت ہے۔ اگر خاوند نے اسے صحیح طور پر نبھایا تو روز قیامت اس کا اجر پائے گا۔ لیکن اگر اس نے اس حق کے نبھانے میں خیانت کی تو یہ خیانت قیامت کے روز اس کے لیے ندامت اور شرمندگی کا باعث ہو گی۔
آپ اس کا حکم مانتی رہیں‘ اگرچہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو‘ اس کا ظلم آپ کو بھی ظلم کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیجیے‘ وہ خدا مظلوم کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ آپ کو آپ کا حق دلا کر ہی چھوڑے گا۔
خاوند کی اجازت کے بغیر روزہ بھی نہ رکھے: