آپ اگر انکساری اور لچک کا مظاہرہ کریں اور اپنے مزاج کو ان کے مزاج کے تابع کر دیں تو کیا حرج؟
آپ اپنی پسند کو ان کی پسند پر قربان کر دیں‘ آپ کے من میں کوئی خواہش انگڑائی لے رہی ہے‘ لیکن آپ کے خاوند کو وہ ناپسند ہے‘ اسے وہیں ختم کر دیجئے‘ بس ان کی مان لیجئے!
ابتدائی زمانے میں ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے آپ کو نئے ماحول کے مطابق ڈھالنے میں کئی طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے‘ لیکن اگر سعی و پیہم شامل حال رہی تو رفتہ رفتہ آپ دونوں کا مزاج یکساں ہو جائے گا۔
مزاجوں کی یکسانیت آپ کے لیے زندگی بھر مفید رہے گی۔ زندگی کا لطف یہی چیز دوبالا کر دے گی۔
لیکن اگر مزاجوں میں ٹکڑاؤ ہوتا رہا‘ کسی طرف سے بھی لچک کا مظاہرہ نہ ہوا تو یاد رکھیئے! پانی کا قطرہ قطرہ بھی اگر کسی سخت پتھر پر گرتا رہے تو اس پر نشان ڈال دیتا ہے۔
غصہ پی جایئے:
زندگی میں سینکڑوں مواقع ایسے آتے ہیں کہ جہاں کامل انسان اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے۔ لیکن بسا اوقات انسان اس قدر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ غصے میں کچھ سے کچھ کر گزرتا ہے‘ اور یہی لمحات اس کے لیے خطرناک ثابت ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو غصہ کیوں آتا ہے؟
جب انسان کے مزاج کے خلاف کوئی کام ہو تو انسان کی خودی اس کے جذبات کو بھڑکاتی ہے‘ اس کی آنکھوں کے ڈورے سرخ ہو جاتے ہیں‘ رگیں پھولنے لگتی ہیں‘ منہ سے جھاگ بہنے لگتی ہے‘ وجود پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے‘ انسان کی اپنی زبان ہی اس کے قابو میں نہیں رہتی‘ کیونکہ اسے غصہ آ رہا ہوتا ہے۔
انسان کو یہ خیال لاحق ہو جاتا ہے کہ اس نے میری توہین کی! بھری مجلس میں مجھے رسوا کر دیا‘ بس یہ خودی جب انگڑائی لیتی ہے تو انسان کو انسانوں کی صف سے باہر لا کھڑا کرتی ہے۔
بھلا کیا …انسان لمحہ بھر کے لیے اپنی اس خودی کو مار نہیں سکتا‘ کیا اس بے جا تکبر و نخوت کو چند لمحوں کے لیے مٹایا نہیں جا سکتا۔
زندگی بھر کے عیش و آرام کو چند لمحوں کے جذباتی تقابل کی نظر کر