ہے‘ اُتنا میرا بھی ہے، میں اس گھر میں غلام بن کر نہیں آئی ،اگر وہ مجھے برا بھلا کہے گی تو میں بھی کہوں گی۔
اس کی سہیلیاں اس کو یہ سبق پڑھاتی ہیں اگر تو ایک بار ساس کے سامنے جھک گئی تو ہمیشہ جھک کر ہی رہنا پڑے گا۔نتیجۃً وہ اپنے دماغ میں جھک کر رہنے تک کا خیال بھی نہیں آنے دیتی ۔
عمومی طور پر جھگڑوں کے اسباب یہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بد گمانیاں پیدا ہوتی ہیں ،اور یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ایک دن بڑے طوفان کا منظر پیش کرتی ہیں،اور آخر کار نہ ختم ہوجانے والے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں، جو محلے داروں اور رشتہ داروں کے لئے ایک تماشہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔
ساس کو کیا سمجھنا چاہئے:
ساس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ بہو کو ایک انسان سمجھے جس کے پہلو میں دل ہے اور اس کی بھی کچھ امیدیں ہیں ،وہ ہمیشہ کے لئے اپنے گھر کو چھوڑ کر آئی ہے اور اسی گھر کو اپنا گھر سمجھتی ہے ،بہو اس کے بیٹے کی عزت ہے غلام نہیں۔
شوہر کے اس پر حقوق ہیں جو اللہ اور رسول کی طرف سے عطا کردہ ہیں ‘اس کو بھی دکھ کا ایسا احساس ہوتا ہے جیسا کہ ساس کو ۔ساس بھی کبھی بہو تھی‘ جیسا سلوک وہ اپنی ساس سے چاہتی تھی ایسا ہی سلوک اس کی بہو اس سے چاہتی ہے‘ کیونکہ ساس اپنی زندگی کا ہر عیش و آرام حاصل کر چکی ہے ۔
آپ سسرال کو اپنا گھر سمجھئے:
جب کوئی لڑکی نئی بیاہ کر کسی خاندان میں آتی ہے تو وہ اس گھر میں بالکل اجنبی ہوتی ہے آج سے پہلے یہاں اس کا کوئی مقام ‘ اس کی کوئی اہمیت اور اس کا کوئی حق نہ تھا‘ لیکن ایجاب قبول کے دو جملوں کے ساتھ ہی اہل خانہ میں سب سے زیادہ اہمیت اسی کی ہوتی اور سب سے زیادہ حقوق اسی کے ہوتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب تک وہ نئی نویلی دلہن رہتی ہے اس وقت تو لوگ اس کی اہمیت کے گن گاتے ہیں ‘ اسے اپنی آنکھوں میں بٹھاتے ہیں ‘ اور خوش ہوتے ہیں۔ کہ ان کے گھر ایک نئی دلہن آگئی لیکن یاد رکھئے گا !ان کی نگاہوں میں آپ کا ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل کر لینا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ‘اگر چہ وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بظاہر