تکوینی اعتبار سے یہ نفس واحدہ ہیں اگرچہ وظیفے کے اعتبار سے مرد و زن دونوں مختلف ہیں اور اس اختلاف کا مقصد یہ ہے کہ خاوند بیوی سے راحت و سکون حاصل کرے۔ یہ ہے انسان کی حقیقت اور تکوین میں زوجیت کے وظیفے کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر … اور کامل نظریہی ہے جسے دین اسلام چودہ صدیاں قبل لایا۔ جس دن کہ تحریف شدہ ادیان عورت کو انسانی مصائب کی بنیاد تصور کرتے تھے ‘ اور اسے ملعون اور منحوس سمجھ کر اس سے مکمل اجتناب کرتے تھے۔ جس دن کہ بت پرستی (جو ابھی تک) عورت کو گرا پڑ امال یا عموماً مرد کی ادنیٰ خادم سمجھتی اور ذاتی اعتبار سے عورت کو کوئی حیثیت نہ دیتی تھی۔
زوجین کے باہمی ملاپ کا اصل مقصد دلی پیار، محبت اور سکون و راحت ہے۔ تاکہ امن و سکون اس فضا پر چھایا رہے جس فضا میں بچہ پرورش پا سکے اور قیمتی بشری پیداوار حاصل ہو سکے۔ اور اس ماحول میں نو وارد نسل بشری تمدنی میراث کو اٹھانے کے قابل ہو سکے۔ اور اس ملاپ کا مقصد محض جنسی تسکین نہیں۔ اسلام نے اسے نزاع و اختلاف کا مقصد قرار دیا ہے۔ جیسا کہ جاہلانہ ٹامک ٹوئیاں تھیں‘ اور جب انسان اپنے نفس پر غور کرے کہ جس نے اس نفس کو نہ تو پیدا کیا اور نہ ہی اسے اس کی تخلیق کا علم تھا اللہ کے بتائے بغیر‘ یہ نفس واحدہ ہے‘ اس کی طبیعت بھی ایک ہے اور خصوصیات بھی ایک۔ ایسی خصوصیات جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں‘ جس طرح یہ نفس انسانی اپنے تمام افراد کو خصوصیات کی قطار میں لا کھڑا کرتا ہے۔ پس نفس انسانی کرہّ ارض پر پھیلے اربوں انسانوں اور تمام نسلوں میں ایک ہی ہے اور اس کا جوڑا بھی اسی سے ہے:
’’خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا‘‘
عمومی بشری خصوصیات میں عورت مرد کے شانہ بشانہ ہے‘ اگرچہ ان کی تفصیلات میں اختلاف ہے۔ اسلام اس طریقے کی حد بندی کرتا ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے کہ مرد وعورت پاک صاف خاندان کی تشکیل میں اکٹھے ہوں‘ اس طریقے میں نظافت اور طہارت کے اعتبار سے جو آسانیاں ہیں اسلام انہیں آشکارا کرتا ہے اور نظم و ضبط کے قواعد بھی مقرر کرتا ہے کہ جن پر اس بنیادی تشکیل کا مدار ہے اور متعاقدین کے ذمے ایک دوسرے کے جو حقوق و فرائض ہیں ان سے بھی اسلام انہیں آگاہ کرتا ہے۔
عبادت نام ہے… ازدواج میں عبادت خداوندی کا… مباشرت میں اس کی