کے لیے اسے وقت نہ ملے گا۔ گھر کی اصلاح کرنے والی‘ نیک صالح بیوی یوں دنیا کے معاملے میں اس کی معاون ہو گی۔لیکن اگر یہ ذرائع مختل ہو گئے تو دل کی تشویش بڑھے گی اور زندگی ویران ہو جائے گی۔ اسی وجہ سے ابو سلیمان دارانی فرماتے ہیں:
’’نیک بیوی کا تعلق دنیا سے نہیں ‘ کیونکہ یہ تجھ کو آخرت کے لیے فراغت مہیا کرتی ہے۔ کیونکہ وہ گھر کے کام کاج اور قضائے شہوت کی ذمہ داری خود اٹھا لیتی ہے‘‘۔
پانچواں فائدہ…:
نفس کا مجاہدہ اور ریاضت… وہ یوں کہ انسان اپنے اہل خانہ کے حقوق کی رعایت کرے گا ‘ ان کی نگہبانی کرے گا‘ ان کے اخلاق کو برداشت کرے گا‘ ان کی طرف سے تکالیف برداشت کرے گا‘ دین کے راستے میں ان کی اصلاح کی کوشش کرے گا‘ انہی کی خاطر حلال روزی کمائے گا‘ اولاد کی تربیت کرے گا‘ غرضیکہ یہ تمام کام بڑی فضیلت والے ہیں۔ کیونکہ ان میں رعایت بھی ہے اور ولایت بھی۔ اہل و عیال رعایا ہیں اور رعایا کی فضیلت بہت ہے۔ جو شخص اپنی بھی اصلاح کرے اور غیر کی بھی تو وہ اس کی طرح نہیں جو کہ صرف اپنی ہی اصلاح کرے اور جو مصیبت جھیلے وہ اس شخص کی طرح نہیں جو دل کو راحت ہی صرف پہنچائے۔ اہل و عیال کی مصیبتوں کو جھیلنا جہاد فی سبیل اللہ کے مرتبے میں ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ما انفقہ الرجل علی اھلہ فھو صدقۃ،وان الرجل لیؤجر فی اللقمۃ یرفعھا الی امراتہ
’’ جو مال آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے وہ صدقہ ہے اور اس آدمی کو اس لقمے پر بھی اجر ملے گا جو وہ اپنی بیوی کو کھلائے ‘‘
(متفق علیہ)
ابن مبارکؒ اپنے بھائیوں کے ہمراہ ایک جہاد میں شریک تھے کہنے لگے:
جس کام میں ہم مشغول ہیں کیا تمہیں اس سے بڑھیا کوئی کام معلوم ہے؟ساتھی کہنے لگے: نہیں‘ فرمایا: میں جانتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ فرمایا‘ پاکباز شخص‘ صاحب اولاد‘ رات کو اٹھے‘ اپنے بچوں کو سوتے ہوئے دیکھے‘ ان پر سے بستر اٹھا ہو تو ان پر کپڑا ڈال دے‘ اس کا یہ عمل ہمارے اس عمل یعنی جہاد سے افضل ہے۔