’’جس نے شہرت کا لباس اس دنیا میں پہنا اللہ پاک اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائیں گے۔ اور اسے آگ کی نذر کردیا جائے گا‘‘
لباس اور حجاب میں ایک اہم عنصر جس سے احتراز لازم ہے وہ یہ ہے کہ لباس سے انسان میں ریاکاری کا عنصر جڑ نہ پکڑے۔ علماء لکھتے ہیں کہ ریاکاری دونوں صورتوں میں ہوسکتی ہے۔
انسان عمدہ لباس پہن کر فخر و غرور کرسکتا ہے۔
اور گھٹیا لباس پہن کر اپنے زہد و تقویٰ کا اظہار کرسکتا ہے۔
دونوں صورتوں میں ریاکاری کا اعلان ہوگا۔ اور اس سے احتراز لازمی ہے۔ خواتین کا ایسا حجاب اوڑھنا جس میں پھول بوٹے اور ایسے شوخ رنگ ہوں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں جھپک جائیں یہ درست نہیں۔
اس لیے کہ حجاب سے مقصود یہ ہے کہ عورت کی ذات بالکل چھپ جائے‘ جوان اور بوڑھی کی تمیز ختم ہوجائے… تو یہ ہوگا حجاب کا اعلیٰ درجہ۔
عورت کا نفقہ مرد پر:
کامیاب سماجی جدوجہد جن صفات کا تقاضا کرتی ہے۔ مثلاً جفاکشی‘ سادگی‘ فطری استقلال اور محنت وغیرہ‘ فطری طور پر عورت کے اندر ان کی کمی ہوتی ہے۔ اور یہ صفات اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب انسان کو مخالف قوتوں سے تصادم اور کش مکش کرنا پڑے۔
لیکن چونکہ عورت عائلی زندگی سے تعلق کی بناء پر کش مکش سے دور رہتی ہے اس لیے مشکل ہی سے اس کے اندر یہ صفات پیدا ہوپاتی ہیں۔
بلکہ اس کے برعکس گھر کی پرسکون زندگی اس کے اندر بڑی آسانی سے تکلف و تصنع‘ عیش و راحت‘ طبعی نزاکت اور غیر مستقل مزاجی جیسی خصوصیات ابھار دیتی ہے۔
عورت کی ان فطری صفات کی بناء پر اسلام نے اس پر اخراجات کی ذمہ د اری نہیں ڈالی۔ بلکہ اس کے باپ‘ بھائی اور خاوندپر اس کے اخراجات کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ کیونکہ عورت اپنی فطری صفات کی وجہ سے سماج میں وہ امور سر انجام دینے سے قاصر ہے جنہیں ایک مرد دے سکتا ہے۔
لیکن اسلام نے اس بات کی اجازت بھی دی ہے کہ اگر کوئی عورت اسلامی حدودو قیودات کا لحاظ رکھتے ہوئے ان امور کو انجام دینا چاہے تو اسے اختیار ہے۔