لیکن ایک بات ضرور یاد رکھنا کہ یہ سب محض اسلام کے حکم سے روگردانی کی وجہ سے ہوگا۔
پردہ کیسے کیا جائے؟
آج ہمارے معاشرے میں پردے کی مختلف صورتیں رونما ہوچکی ہیں۔ لیکن میں یہاں صرف اتنی بات ذکر کروں گا کہ آپ ایسا حجاب اوڑھیں جو آپ کے وجود کو مردوں کی نگاہوں سے مخفی کردے۔
آپ کی چادر یا برقع ایسا چست نہ ہو کہ آپ کے مستور اعضاء کی کپڑے کے اندر سے ہی نمائش ہو۔ حجاب ایسا شوخ نہ ہو کہ راہ چلتے کو اپنی طرف متوجہ کرلے۔ بلکہ صرف اتنا کہوں گا کہ آپ کا برقع ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی بدفطرت بھی یہ تمیز نہ کرسکے کہ یہ خاتون جو جارہی ہے دو شیزہ ہے یا بڑھیا۔
کیا آنکھیں چہرے کا حصہ نہیں؟
چند سال پیچھے چلے جائیں تو اسی معاشرے میں خواتین کا نقاب آج سے یکسر تبدیل دکھا ئی دے گا۔ رفتہ رفتہ اس میں پیش رفت ہونے لگی۔ معمولی آنکھیں نقاب سے باہر آنے لگیں‘ پھر نقاب نیچے کی جانب سرکنا شروع ہوگیا۔ پھر ذرا اوپر کی طرف ہٹنے لگا کہ بسااوقات ناک بھی نمودار ہونے لگی۔ پیشانی نے اپنے آپ کو ظاہر کرکے کچھ بالوں کو بھی نمود و نمائش کی اجاز ت دے دی۔
خواتین سستی کرتی گئیں اور بات بڑھتی گئی۔
میں آپ سے صرف ایک بات پوچھوں گا کہ جب آپ آنکھیں ظاہر کردیتی ہیں تو کیا آپ کے مکمل وجود کا حسن صرف آپ کی آنکھوں میں نہیں آجاتا ہے؟
کیا یہ ہیجان کے لیے کافی نہیں ہوتیں؟
یقینا آپ کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہوگا تو پھر دیر کیسی!
جہاں آپ نے 5 فٹ کا وجود ڈھانپا یہ ایک انچ ڈھانپنے میں دیرکیسی؟
عقلوں پر پردے؟
موجودہ دور نے عریانی کو ایک فن و آرٹ بنادیا ہے اور ایسی فضا پیدا کردی گئی ہے کہ عورت نے خوشی خوشی شرم و حیاء کا زیور اتار پھینکا۔ لیکن دوسری جانب مرد کی وردی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ذرا تصور کیجئے! سردیوں کی ایک یخ بستہ رات میں ایک جوڑا کسی