چادر دیکھ کر پاؤں پھیلایئے:
اخراجات کی شرح آمدنی کی شرح سے کم رکھیے۔ آج اگر آپ کی آمدنی 1000 روپے ہے اور 2000 کے اخراجات کر رہی ہیں تو کل کو یہ آمدنی 700 رہ جائے گی لیکن اخرجات کو نیچے لانا مشکل ہو گا۔
پھر آپ نہ تو اطمینان سے کھا سکیں گی اور نہ ہی پہن سکیں گی۔ اپنی حقیقت پہچانیے اور اوقات میں رہنے کی ہر وقت کوشش کیجیے۔
ہر کام سے قبل مشورہ کر لیجیے‘ پھر الزام کا موقع کسی کو نہ ملے گا۔ جو کام کیجیے حیثیت کے موافق کیجیے‘ کبھی پریشانی نہ ہو گی۔
آج کل اسراف کا دستور و رواج ہے۔ اگر کوئی اپنی حیثیت میں رہ کر کرے تو لوگ بخیل کہتے ہیں۔ غریب کوئی بھی نہیں کہتا۔ بس اسی سے لوگوں کی فطرت اور خصلت کا اندازہ کر لیجیے۔
آپ اپنے آپ کو ترجیح دیں اور اپنی حیثیت میں رہیں۔ اس بے جا خرچ سے کیا فائدہ کہ وقت پڑنے پر انسان دوسروں کا محتاج بن جائے‘ اس ہوشیاری سے خرچ کیجئے کہ نہ تو آپ کو قرضہ اٹھانا پڑے اور نہ ہی مردوں کو تکلیف ہو۔ان سے ہر وقت فرمائشیں نہ کیجیے‘ اور نہ ہی کسی وقت پر طعنہ دیجئے کہ ’’میری خواہش کا کبھی پاس نہیں رکھا گیا‘‘۔
جو کچھ آپ کو دیا جائے اسے غنیمت جانیے اور ان کے آرام کی فکر کرتی رہیں۔
قنا عت اختیا رکیجئے:
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کندھے سے پکڑ کر فرمایا:
’’تم دنیا میں ایسے ہو جاؤ جیسے کوئی اجنبی ہو یا راستہ عبور کرنے والا‘‘
امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں جو یہ فرمایا گیا کہ اجنبی یا مسافر بن کر رہو ا س کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا کی زندگی میں قناعت اختیار کرنے کاحکم دیا ہے۔
وہ اس طرح کہ اجنبی اور مسافر دوسری جگہ پر نہ تو مالداری چاہتے ہیں اور نہ ہی اس مقام پر مستقل رہنا چاہتے ہیں ،بلکہ وہ تو تھوڑے بہت گزارے کے بقدر ہی سامان زندگی اکٹھا کرتے ہیں۔
حضرت اکثم ؒ فرماتے ہیں کہ جو آدمی ختم ہونے والی اور فانی چیز کی پرواہ نہ کرے ،وہ اپنے آپ کو استراحت دیتاہے اور جو تھوڑے پر راضی رہتا ہے اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہتی ہیں۔