ذلک۔
آنکھ کا حسن و جمال:
انسانی وجود میں جہاں آنکھ کی اہمیت سے انکار نہیں وہیں اس کے حسن و جمال سے بھی انکار نہیں۔ کیونکہ انسانی نظر کا پہلا ٹکراؤ عموماً ان آنکھوں سے ہی ہوتا ہے۔ اگر ان کا حسن و جمال قابل دید ہو تو انسان اسی میں کھو کر رہ جاتا ہے۔
علماء لکھتے ہیں کہ عورت کے لیے اپنے خاوند کی منشاء کے مطابق اپنی آنکھوں کی رنگت کی تبدیلی کے لیے لینزز کا استعمال کرنا درست ہے۔ اسی طرح اگر عورت کا خاوند ہر وقت اس کے چہرے پر نظر کی عینک دیکھنا پسند نہیں کرتا تو وہ عینک اتار کر نظر کے لینزز استعمال کرے۔
سرمہ آنکھ کا حسن ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کی خواتین کو ناپسند فرمایا ہے: مرھاء … و … ملداء
مرھاء ایسی عورت جس کی آنکھ میں سرمہ نہ ہو اورملداء ایسی عورت جس کے ہاتھ پاؤں میں مہندی نہ لگی ہو۔
آنکھ میں اگر سرمہ لگا ہو تو سفید اور سیاہ کا امتزاج ایک حسین امتزاج کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اور ویسے بھی سرمہ تو ایسی چیز ہے جو ہر انسان کی دسترس میں ہو سکتا ہے۔
عمومی جمال:
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ عورت کو اپنے خاوند کی نظر میں حسن و جمال کے معیار سے واقف ہونا ضروری ہے۔ کسی حیلے‘ بہانے اس کی زبان سے یہ بات نکلوا لے اور پھر اس پر پورا اترنے کی کوشش کرے۔
بالفرض اگر اس کا خاوند سیدھے بال اور دراز بال پسند کرتا ہے تو وہ اس کے لیے کوشش کرے اور ایسی ادویات کا استعمال کرے۔اگر خاوند گھنگھریالے بال پسند کرتا ہے تو اس کے لیے کوشش کرے۔
ویسے بھی روایات میں آتا ہے کہ:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک نہ تو بالکل سیدھے تھے اور نہ بہت زیادہ گھنگھریالے‘ بلکہ ان میں ہلکا سا گھنگھریالہ پن تھا۔
اسی طرح کپڑوں کی رنگت کے بارے میں بھی خاوند کے نقطہ نظر سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ جو رنگ وہ عمومی طور پر پسند کرے آپ اپنے