کاری کیجئے۔ تاکہ آپ کو دنیا میں بھی جنت کا لطف ملے اور آخرت میں بھی ابدی راحت حاصل ہو۔
تفاخر سے بچئے:
خود ستائی‘ تکبر‘ حرص‘ تفاخر و تقابل کے جذبات کو پس پشت ڈال دیجئے۔ تفاخر کرنے والا انسان در اصل سوسائٹی میں اپنا رعب جمانے کی کوشش کرتا ہے یا بے چارہ اپنے احساس کمتری کو چھپانا چاہ رہا ہوتا ہے۔
اگر اللہ پاک نے آپ کے اندر ایک صلاحیت اور قابلیت و دیعت نہیں رکھی تو اسے پیدا کرنے کی کوشس و سعی کیجئے ،بھلا …بے جا تفاخر اور ڈینگ مارنے کی کیا ضرورت ہے؟
وہ ذات تو سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ جس کے سامنے آپ شیخی بکھار رہی ہیں اللہ پاک اسی کے سامنے اصل بھانڈہ پھوڑ دیں اور نتیجۃً آپ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جائیں۔
یاد رکھیئے! جب خودستائی اور تفاخر کی بیماری لگ جاتی ہے تو تمام عمر اس سے خلاصی پانا ذرا مشکل ہو جاتا ہے، اس سے بڑھ کر تو یہ کہ بے چارہ انسان جو اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے وہ اسے چھوڑنا تو کجا اسے اس میںمزہ آ رہا ہوتا ہے۔
میں آپ کو خو ستائی کا آسان علاج بتاتا ہوں۔
آپ اپنی نیت کا رخ امداد باہمی‘ انسانی ہمدردی‘ خلوص جیسے جذبات کی طرف پھیر دیجئے۔پس لیجئے! آپ کی خود ستائی کا علاج ہو گیا۔
بھلا حسد کا کیا فائدہ؟
کسی کی آسودگی اور خوشحالی کو دیکھ کر اندر ہی اندر سے بے چین اور مضطرب ہوتے رہنا‘ بھلا! کیا اسے بے چین کردے گا؟ قطعاً ایسی بات نہیں…!
آپ تو خود اپنا نقصان کر رہی ہیں۔
آپ کو معلوم ہے کہ یہ حسد آپ کو مفلوک الحال بنا رہا ہے؟ یہ رحم کے جذبے کو آپ سے دور بھگا رہا ہے۔ آپ کے گھمنڈ‘ تکبر‘ نحوست اور خود آزادی کو جنم دے رہا ہے۔
اور آپ کی خودی مجروح ہو رہی ہے۔
یہ حسد آپ کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ آپ کے خون کا بہاؤ تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ آپ کا جسم درد کے مارے ٹوٹنے لگا ہے۔ سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ،وجود طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہا