’’تمہارا شمار سابقین میں ہے‘‘
(بخاری‘ کتاب الجہاد‘ باب غزوۃ المراۃ البحر)
اسی طرح جب حضرت جابرؓ کی خالہ کو طلاق ہوگئی تو عدت میں وہ گھر سے باہر نکلیں۔ کسی نے روکا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اخرجی فجدی نخلک لعلک ان تصدقی منہ او تفعلی خیرا
(ابوداؤد‘ کتاب الطلاق باب فی المبتوۃ تخرج النھار۔ رواہ مسلم و ابن ماجہ ایضا)
’’تو باہر نکل اور اپنے کھجور کے درخت کاٹ تاکہ تم صدقہ‘ خیرات یا بھلائی کا کوئی کام کرسکو‘‘
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کو اسلام نے مخصوص شرائط کے تحت سماج کے کام کاج کی اجازت دی ہے۔ تاکہ عورت اپنے اندر اٹھنے والے داعیات کو پورا بھی کرسکے اور ان نقصانات سے بھی بچ سکے جنہیں ہم ذکر کرچکے ہیں۔
لیکن اس سے قبل ہم کاموں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
پہلی قسم:
وہ کام جن کی خواتین کو اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان شعبہ جات میں خواتین نہ ہوں تو بہت سی خرابیاں جنم لیں۔
جیسے زچگی کے معاملات‘ خواتین کے عمومی طبی معاملات‘ خواتین کے مخصوص طبی معاملات‘ مثلاً ایسے دیگر معاملات کہ اگرخواتین ان کو اختیار کریں اور دوسری خواتین ان کی وجہ سے مردوں سے مستغنی ہوجائیںتو یہ خواتین کے لیے فرض کفایہ کا درجہ رکھتے ہیں۔
دوسری قسم:
ایسے معاملات جن میں مرد بھی کام کرسکتے ہیں‘ خواتین پر وہ کام موقوف نہیں۔ جیسے تجارت‘ صنعت و حرفت‘ کھیتی باڑی ‘مملکت کے منصبی کام‘ ان امور میں بھی خواتین حصہ لے سکتی ہیں لیکن شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔
البتہ ایسے کام جو خواتین گھر بیٹھے ہی کرسکتی ہیں وہ بھی خواتین کے لیے جائز ہیں۔ لیکن دو کام ایسے ہیں جو خواتین کے لیے کسی صورت جائز نہیں۔
سربراہ مملکت:
کیونکہ حضور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد گرامی ہے: