ریزرویشن نہیں ‘ کسی قسم کا امتیاز نہیں۔
دیکھیں !مردوں نے کسی عورت کا ذکر نہ کیا‘ نہ ماں کا‘ نہ بہن کا‘ نہ شریک حیات کا‘ یہ مرد تو بھول ہی گئے لیکن اللہ پاک نے فرمایا کہ ہم بھولنے والے نہیں… ہمیں یاد ہے۔
اس موقع پر غور کرنے سے اگر ہماری ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کے رونگٹے رونگٹے سے شکر کے ترانے نکلنے لگیں بلکہ ابلنے لگیں تو یہ بالکل بجا ہے۔ بلکہ بر محل اور بر موقع ہے۔ اس پر مرد و عورت رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔
اسلام میں عورت کی عزت و تکریم:
اسلام نے عورت کو ناپسندیدہ اور قابل اہانت قطعاً خیال نہیں کیا‘ جیسا کہ جاہلیت میں تھا۔ بلکہ اسلام نے عورت کو مرد کا شریک ٹھہرایا۔ جو حقوق مرد کو دیئے اس کے مساوی عورت کو بھی حقوق عطا کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی فطرت اور خلقت کے مطابق اس پر کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالیں۔
اسلام نے عورت کو پستی کی آخری حد سے اٹھا کر بلندی کی اس وسعت تک جا پہنچایا کہ اقوام عالم ڈنگ رہ گئیں۔ اسے ہر قسم کے حقوق و مراعات سے نوازا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
کنا نتقی الکلام والانبساط الی نسائنا علی عھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ھیبۃ ان ینزل فینا شئی فلما توفی النبی صلی اللہ علیہ وسلم تکلمنا وانبسطنا۔
(بخاری کتاب النکاح‘ باب الرضاۃ بالنساء‘ ابن ماجہ باب ذکر وفاتہ و دفنہ صلی اللہ علیہ وسلم)
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اپنی خواتین سے گفتگو کرتے اور بے تکلفی برتتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارے متعلق کوئی حکم خداوندی ہی نازل نہ ہوجائے۔ چنانچہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو ہم بے تکلفی برتتے ہوئے ان سے گفتگو کرنے لگے‘‘۔
خواتین کا الگ تذکرہ:
اللہ پاک نے قرآن کریم کی سورۂ احزاب میں اپنے نیک بندوں اور نیک بندیوں کے نیک اعمال کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن اللہ پاک نے دونوں صنفوں کا الگ الگ تذکرہ کیا ہے۔ اور اس پیرائے کی طوالت کا لحاظ نہیں کیا۔ بلکہ الگ الگ ذکر کرکے یہ باور کر ایاہے کہ دونوں کی اہمیت خدا کے ہاں یکساں ہے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ رب تعالیٰ تفریق کے تصور کوکس طرح توڑ رہے ہیں: