والدین اور خاندان سے محروم کردیا ہے اس لئے کہ اس کے دل میں بھی یہ شعور آسکتا ہے کہ اس نے بھی تیری خاطر اپنے والدین اور خاندان کے ساتھ رہنا چھوڑا ہے۔ لیکن اس میںاور تجھ میں اتنا فرق ہے جتنا مرد اور عورت کے درمیان ہوتا ہے‘ عورت ہمیشہ اپنے خاندان میں اپنے اس گھر کی طرف راغب ہوتی ہے جس میں وہ پیدا ہوئی اور اس نے نشو نما پائی اور بڑی ہوئی اور تعلیم پائی ہو۔ لیکن اس کے باوجود اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو ایسے مرد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی کیفیت سکھائے جو کہ اس کاخاوند اور بادشاہ بن گیا ہے، اور اس کے بچوں کا باپ بن گیا ہے۔اے میری بیٹی!یہی تیری نئی زندگی ہے ۔اے میری بیٹی! یہی تیرا زمانہ حال و استقبال ہے ‘یہی تیرا کنبہ ہے‘ جو تیرے اور تیرے خاوند کے سبب پیدا ہوا۔ اب سمجھ کہ تیرے ماں باپ گزر گئے میں تجھے یہ نہیںکہتی کہ تو اپنے ماں باپ اور بھائیوںکو بالکل بھلا دے اس لئے کہ وہ تجھے کبھی نہیں بھلائیں گے۔
اے میری بیٹی! ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو کیسے بھلا سکتی ہے لیکن میں تجھے یہ کہتی ہوں کہ تو اپنے خاوند سے محبت کر اور اسی کی خاطر زندہ رہ اور اس کے ساتھ زندگی بسر کر کے خوش بختی حاصل کر۔
چوتھی نصیحت:
محمد بن مثنیٰ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اے میرے بیٹے! اپنے آپ کو اجنبی عورت سے بچا کر رکھنا کیونکہ اس سے کلام کرنا وعید ہے اور اس کی آواز سخت ہے‘ نیکیوں کو دفن کردیتی ہے‘ برائیوں کو پھیلاتی ہے اور تیرے مخالف زمانے کی مدد کرتی ہے اور زمانے کے مخالف تیری مدد گار نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں خاوند کے لئے کوئی نرمی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے دل میں خاوند کا ڈر ہوتاہے۔ اگر خاوند گھر آئے تو وہ باہر نکل جاتی ہے اور اگر وہ گھر سے باہر چلا جائے تو وہ گھر آجاتی ہے اور اگر خاوند ہنسے تو وہ رو پڑتی ہے ‘ اور اگر خاوند کو رونا آجائے تو وہ ہنس پڑتی ہے ۔ اگر خاوند اس کو اپنے پاس رکھے تو وہ اس کے لئے مصیبت بن جاتی ہے اور اگر وہ اس کو طلاق دے دے تو وہ اللہ تعالی سے کثرت کے ساتھ دعا کر کے خاوند کو اپنی طرف مشغول کرنے میں لگ جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی خاوند کے بارے میں اس کا ( رقت آمیز) خیال کم ہوتا ہے ‘سب کچھ کھانے اور