سے نہ صرف تأسف شدید بلکہ شقاوت کا شکار ہوجاتاہے۔
مومن خوف کا مقابلہ کیسے کرتاہے؟
جب مومن کو اسباب خوف لاحق ہوتے ہیں، بے چینیاں اور قلق اسے آگھیرتے ہیں تو وہ صحت ایمانی کے ساتھ ثابت قدم رہتاہے ۔ اس کا نفس برابر مطمئن رہتاہے، فکروعمل کے ذریعے وہ اسے دور کرنے کی تدبیر کرتاہے ۔ بالآخر اس کا نفس اس قلق و اضطراب سے مانوس ہوجاتاہے۔ مصائب پر اس کا نفسی ہیجان رفتہ رفتہ ختم ہوجاتاہے اور یہی خوف جو پہلے خوف تھا اب اس کی راحت اور دلی سکون کا باعث ہے۔
جبکہ نور ایمان سے محروم کے ساتھ اگر یہی عوارض پیش آجائیں تو اس کا ضمیر قلق کا شکار ہوجاتاہے ‘اعصاب بگڑ جاتے ہیں ، افکار بکھر جاتے ہیں ، خوف اور رعب اس کے نفس پر غلبہ پالیتے ہیں ،باہر سے خوف اور اندر سے قلق کا اجتماع اس کے معاملے کو بگاڑ دیتاہے۔
آپ حیران ہوں گی کہ شجاعت و بہادری کے اسباب اختیار کرنے میں مومن اور کافر یکساں ہیں لیکن ان میں یہ تفریق کیسی؟
یاد رکھئے!مومن اپنی قوت ایمانی ،صبر،توکل علی اللہ اور استعانت باللہ اور امیدِ ثواب جیسے اسباب اختیار کر کے اپنی شجاعت کو دوگنا سے چار گنا کر رہا ہوتاہے۔ خوف اور قلق اسے زچ کرنے کی بجائے خود مرعوب ہورہے ہوتے ہیں ، مصائب اور تکالیف اس کے لئے سہل بنتی جاتی ہیں‘ ارشاد باری تعالی ہے:
{اِنْ تَکُوْنُوْا تَأْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَأْلَمُوْنَ کَمَا تَأْلَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَالَا یَرْجُوْنَ}
(النساء:104)
اپنے آپ کو کسی کام میں مشغول کرلیں:
اعصابی کھچاؤ سے جو قلق پیدا ہوتاہے اسے دور کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی مفیدکام میں یا مفید علم میں مشغول کرلیں۔کیونکہ مفید کام میں آپ کی مشغولیت آپ کے قلبی رجحان کو اس قلق و بے چینی سے غافل کردے گی۔
عین ممکن ہے کہ غم واندوہ کے اسباب ہی سرے سے آپ بھول جائیں اور نفسی سرور آپ کو حاصل ہوجائے، اور نشاط و چستگی میں اضافہ ہوجائے، اس تگ و دوہ میں کافر اور مومن یکساں ہیں، لیکن مومن اپنے ایمان، اخلاص، نیت بھلائی اور اس پر مرتب ہونے والے ثواب کی