حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ینقطع عمل ابن آدم الا من ثلاث :من ولد صالح یدعو لہ،او صدقۃ جاریۃ من بعدہ،او علم ینتفع بہ
’’تین صورتوں کے علاوہ ہر اعتبار سے انسان کا عمل منقطع ہو جاتا ہے‘ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے‘ یا اس کے بعد جاری رہنے والا صدقہ یا ایسا علم وہ چھوڑ جائے کہ جس سے لوگ مستفید ہوں‘‘۔(صحیح الجامع الصغیر: ۷۹۳)
دین دار لوگوں کی اولاد کی اکثریت صالح ہوتی ہے۔ خصوصاً جب وہ اس کی اچھی تربیت کریں۔ خلاصہ یہ کہ مؤمن چاہے نیک ہو یا فاجر‘ والدین کے حق میں اس کی دعا فائدہ مند ہے‘ اسے اس کی دعاؤں اور نیکیوں پر اجر ملے گا کیونکہ یہ اس کا اپنا کسب ہے اور اس اولاد کے گناہوں پر باپ کی پکڑ نہ ہو گی‘ کیونکہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھائے گا‘ اسی بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اَلْحَقْنَا بِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَمَا اَلَتْنَاھُمْ مِّنْ عَمَلِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ} (سورہ الطور: ۲۱)
’’یعنی ہم نے ان کے اعمال میں کوئی کمی نہ کی بلکہ ان پر مزید احسان کرتے ہوئے انہیں اولاد عطا کی۔‘‘
چوتھی وجہ … اگر باپ کی زندگی میں بچہ فوت ہو گیا تو وہ اس کے لیے شفیع بن جائے گا۔
حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
یا خذ بثوبہ کما انا آخذ بثوبک
’’بچہ اپنے باپ کے کپڑوں کو یوں پکڑے گا جیسے میں نے اس وقت تمہارے کپڑوں کو پکڑ رکھا ہے‘‘۔ (مسلم)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
یقال لھم:ادخلواالجنۃ ،فیقولون:حتی یدخل آباؤنا فیقال:ادخلواالجنۃ انتم وآباؤکم
’’ ان بچوں سے کہا جائے گا :جنت میں داخل ہو جاؤ‘ تو وہ کہیں گے:ہم جنت میں اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک ہمارے آباؤ اجداد داخل نہ ہوں‘ تو ان سے کہا جائے گا: تم اور تمہارے آباؤ اجداد سب داخل ہو جاؤ‘‘۔
(اخرجہ النسائی و اسنادہ جید)
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں اپنے تین بچے دفن کر چکی ہوں۔